Connect with us

news

ڈاکٹر عابد رضا پاکستان کے صفِ اول کے 10 سائنس دانوں میں شامل

Published

on

ڈاکٹر عابد رضا

پاکستان کے معروف ماحولیاتی سائنس دان اور سمندری محقق ڈاکٹر عابد رضا کو 2025 کی حالیہ سائنسی درجہ بندی میں پاکستان کے 10 بہترین سائنس دانوں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ اعزاز انہیں جامعہ کراچی کی موضوعاتی درجہ بندی میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران شائع شدہ تحقیقی کام اور ان کے H-index کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عابد رضا اس وقت ہمدرد یونیورسٹی کے حافظ محمد الیاس انسٹیٹیوٹ آف فارماکولوجی اینڈ ہربل سائنس میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ پاکستان میں زیرِ سمندر مرجانی چٹانوں (کورل ریفس) پر تحقیق کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتے ہیں اور اسکوبا ڈائیونگ کے ذریعے براہِ راست سمندری مشاہدات میں مصروف ہیں۔

انہوں نے 2013 میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور ان کی تحقیقی کتاب “پاکستان کی مرجانی چٹانیں” کو قومی و بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔ حال ہی میں ان کی نئی کتاب “پاکستان کا مستقبل: میرین فارماکولوجی” برطانیہ سے شائع ہوئی ہے، جس میں پاکستان کے سمندری وسائل میں موجود قدرتی دواؤں کی افادیت اور تجارتی امکانات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ڈاکٹر عابد رضا کو عالمی تحقیقی ادارے The Coral Reef Research Hub کے مینٹورشپ پروگرام میں بھی شامل کیا گیا ہے، جہاں وہ بین الاقوامی سطح پر نوجوان سائنس دانوں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔

ماحولیاتی سائنس میں ان کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں پاکستان کے سرفہرست سائنس دانوں میں شمار کیا گیا ہے۔ ان کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مرجانی نظام میں پائے جانے والے قدرتی کیمیکلز کینسر، خون کی کمی، السر اور جلدی امراض کے علاج میں مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ اب تک وہ 45 سے زائد سائنسی کتب اور تحقیقی مقالات کے مصنف ہیں، اور ان کا کام گوگل اسکالر سمیت دیگر عالمی سائنسی پلیٹ فارمز پر بھی نمایاں طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عابد رضا کی مسلسل سائنسی کاوشیں نہ صرف پاکستان کو ماحولیاتی تحفظ اور قدرتی دوا سازی میں نئی بلندیوں پر لے جا رہی ہیں بلکہ نوجوان محققین کے لیے ایک روشن مثال بھی ہیں۔ ان کی تحقیق پاکستان کے قدرتی وسائل کے مؤثر استعمال اور عالمی سائنسی برادری میں مقام بنانے کی جانب ایک مؤثر قدم ہے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی نئی بلندیاں

Published

on

پاکستان اسٹاک ایکسچینج

کراچی — پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے کاروباری ہفتے کے آغاز پر ایک اور تاریخی سنگ میل عبور کرلیا، جہاں 100 انڈیکس نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ پیر کے روز سرمایہ کاروں کی بھرپور دلچسپی اور مارکیٹ میں مثبت رجحانات کے باعث کے ایس ای 100 انڈیکس میں کاروبار کا آغاز 691 پوائنٹس کی تیزی سے ہوا، جس کے بعد انڈیکس 154,969 پوائنٹس کی سطح پر پہنچا۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا مثبت رجحان برقرار رہا اور بتدریج مزید تیزی آئی، جس کے نتیجے میں انڈیکس میں مجموعی طور پر 1692 پوائنٹس کا نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یوں انڈیکس 155,969 پوائنٹس کی نئی تاریخ ساز بلند ترین سطح تک جا پہنچا۔ یہ مسلسل دوسرا موقع ہے جب اسٹاک مارکیٹ نے نئے ریکارڈز قائم کیے، کیونکہ گزشتہ کاروباری ہفتے کے اختتام پر بھی انڈیکس 154,000 پوائنٹس کی حد عبور کر چکا تھا۔

ماہرین کے مطابق یہ اضافہ سرمایہ کاروں کے اعتماد، معاشی اشاریوں میں بہتری اور ملکی مالیاتی پالیسیوں میں استحکام کی نشاندہی کرتا ہے۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ ججز کا چیف جسٹس کو خط

Published

on

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک اہم خط لکھا ہے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ رولز کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری پر شدید اعتراضات اٹھائے ہیں۔ خط لکھنے والے معزز ججز میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔ ان ججز نے واضح طور پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فل کورٹ اجلاس میں شرکت سے بھی گریز کیا۔

خط کے متن کے مطابق، ججز کا مؤقف ہے کہ انہیں فل کورٹ میٹنگ کا نوٹس تو ملا، لیکن رولز کو منظوری کے لیے فل کورٹ کے سامنے پیش ہی نہیں کیا گیا۔ اجلاس کا ایجنڈا صرف ایک نکاتی تھا جس میں نئے رولز سے ممکنہ مشکلات کے حل کا ذکر کیا گیا تھا، لیکن اس میں رولز کی منظوری کا عمل شامل نہیں تھا۔ ججز کے مطابق، رولز کو سرکولیشن کے ذریعے منظور کرنا ایک معمولی کارروائی نہیں بلکہ یہ آئینی نوعیت کا معاملہ ہے جس کے لیے باقاعدہ فل کورٹ اجلاس ہونا چاہیے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ آئین کے تحت بنائے جانے والے سپریم کورٹ رولز کا اس انداز میں سرکولیشن کے ذریعے منظور ہونا نہ صرف قابل اعتراض ہے بلکہ آئینی حدود سے متجاوز بھی ہے۔ اگر رولز کی منظوری کے لیے فل کورٹ اجلاس بلانا اتنا غیر اہم تھا تو پھر ترمیم کے لیے اجلاس کی ضرورت ہی کیوں محسوس کی گئی؟ ججز نے مطالبہ کیا کہ ان کے اس خط کو فل کورٹ میٹنگ کی کارروائی کا حصہ بنایا جائے اور اس کارروائی کو عوام کے سامنے بھی لایا جائے۔

انہوں نے آخر میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ ان کی نظر میں سپریم کورٹ کے موجودہ نئے رولز آئینی اور قانونی بنیادوں پر درست نہیں اور یہ عمل غیر شفافیت کا شکار رہا ہے۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~