Tag: technology

  • دنیا کا پہلا ٹچ اسکرین ڈیوائس اور موبائل فون: ایک تاریخی جائزہ

    دنیا کا پہلا ٹچ اسکرین ڈیوائس اور موبائل فون: ایک تاریخی جائزہ

    دنیا میں سب سے پہلا ٹچ اسکرین آلہ 1960 کی دہائی میں ایجاد ہوا، اور اس انقلابی ایجاد کے پیچھے برطانوی سائنسدان ای اے جانسن (E.A. Johnson) کا نام آتا ہے۔ ای اے جانسن نے مالورن، برطانیہ میں واقع رائل ریڈار اسٹیبلشمنٹ میں کام کرتے ہوئے 1965 سے 1967 کے دوران ایک کیپسیٹو ٹچ ڈسپلے تیار کیا، جو دنیا کی تاریخ کا پہلا حقیقی ٹچ ڈسپلے سمجھا جاتا ہے۔

    ای اے جانسن نے یہ ٹیکنالوجی بنیادی طور پر فوجی استعمال اور ایئر ٹریفک کنٹرول جیسے اہم مقاصد کے لیے ڈیزائن کی تھی۔ وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے ٹچ اسکرین کے تصور کو حقیقت کا روپ دیا اور اسے عملی طور پر متعارف کرایا۔

    دوسری جانب اگر ہم ٹچ اسکرین والے موبائل فون کی بات کریں تو عمومی طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایپل یا سام سنگ نے یہ ایجاد کی، مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

    دنیا کا سب سے پہلا ٹچ اسکرین والا موبائل فون آئی بی ایم (IBM) کمپنی نے بنایا تھا، جسے “آئی بی ایم سائمن” (IBM Simon) کا نام دیا گیا۔ یہ فون 1994 میں لانچ کیا گیا اور اسے دنیا کا پہلا سمارٹ فون (Smartphone) بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں کال کرنے، ای میل بھیجنے، کیلنڈر دیکھنے اور دیگر ایپلیکیشنز جیسی خصوصیات موجود تھیں۔

    آئی بی ایم سائمن ایک تاریخی ایجاد تھی، جس نے آنے والی دہائیوں کے لیے موبائل ٹیکنالوجی کی سمت متعین کی اور آج کے جدید اسمارٹ فونز کی بنیاد رکھی۔

  • متحدہ عرب امارات میں شناختی کارڈز کی جگہ چہرے کی شناخت کا جدید نظام متعارف

    متحدہ عرب امارات میں شناختی کارڈز کی جگہ چہرے کی شناخت کا جدید نظام متعارف

    متحدہ عرب امارات روایتی شناختی کارڈز کی جگہ چہرے کی شناخت پر مبنی جدید بائیو میٹرک نظام متعارف کرانے جا رہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد سرکاری خدمات تک عوام کی رسائی کو مزید آسان اور مؤثر بنانا ہے، جس کے ذریعے لوگ محض اپنے چہرے کی شناخت کے ذریعے مختلف سہولیات سے استفادہ حاصل کر سکیں گے، یہاں تک کہ ایئرپورٹس پر سیکیورٹی چیک پوائنٹس سے بھی بآسانی گزر سکیں گے۔

    دبئی اور ابوظہبی کے ایئرپورٹس پہلے ہی دنیا کے چند جدید ترین چہرے کی شناخت کے نظام استعمال کر رہے ہیں، جن کی بدولت فزیکل رابطے کی ضرورت کم ہو گئی ہے اور مسافروں کے سفر کو زیادہ سہل بنایا جا چکا ہے۔

    امارات کے وزیر صحت و روک تھام اور ایف این سی امور کے وزیر مملکت عبدالرحمن ال اویس نے فیڈرل نیشنل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ چہرے کی شناخت اور فنگر پرنٹس جیسے بائیو میٹرک طریقے اب متحدہ عرب امارات کی “ڈیجیٹل فرسٹ” حکمت عملی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ جدید نظام ایک سال کے اندر اندر پورے ملک میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایمریٹس شناختی کارڈ، جو کہ ملک میں رہنے والے ہر شہری اور مقیم فرد کے لیے لازم ہے، پہلے ہی کئی جدید خصوصیات کا حامل ہے، جن میں لیزر پرنٹ شدہ تھری ڈی تصاویر اور طویل المدتی دس سالہ سروس لائف شامل ہے۔ اس نئے اقدام سے متحدہ عرب امارات کی ڈیجیٹل شناختی نظام کی ترقی میں مزید پیش رفت کی توقع کی جا رہی ہے۔

  • میکسیکو میں دنیا کا پہلا بچہ اے آئی روبوٹ کے ذریعے پیدا

    میکسیکو میں دنیا کا پہلا بچہ اے آئی روبوٹ کے ذریعے پیدا

    میکسیکو میں سائنس اور طب کے میدان میں ایک حیرت انگیز پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں پہلی بار ایک ایسے بچے کی پیدائش ہوئی ہے جسے مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے لیس روبوٹ کے ذریعے ماں کے جسم میں منتقل کیا گیا۔ یہ دنیا کا پہلا واقعہ ہے جہاں مکمل آئی وی ایف (IVF) عمل ایک خودکار اے آئی روبوٹ کے ذریعے مکمل کیا گیا ہو۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق جس خاتون نے اس بچے کو جنم دیا، ان کی عمر 40 سال ہے اور وہ کافی عرصے سے ماں بننے کی خواہش رکھتی تھیں، تاہم کئی کوششوں کے باوجود کامیاب نہ ہو سکی تھیں۔ بعدازاں انھیں ایک تجرباتی پروگرام کے لیے چُنا گیا جس میں ایک خودکار اے آئی روبوٹ استعمال کیا گیا جو مکمل طور پر جدید مصنوعی ذہانت پر مبنی ہے۔

    اس تجربے میں انسانی ماہرین کی جگہ ایک روبوٹ نے آئی وی ایف کا پورا عمل انجام دیا۔ یہ روبوٹ نہ صرف فرٹیلائزیشن کا عمل خود سرانجام دیتا ہے بلکہ سب سے صحت مند اور موزوں خلیے بھی خود ہی منتخب کرتا ہے، اس طرح انسانی غلطیوں کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔

    یہ نیا طریقہ کار میکسیکو کے شہر گواڈیلاہارا میں آزمایا گیا جہاں پانچ خلیوں پر تجربہ کیا گیا، جن میں سے دو کامیاب رہے۔ کامیاب خلیات میں سے ایک کو خاتون کے جسم میں منتقل کیا گیا، جس سے ایک صحت مند بچے کی پیدائش ممکن ہوئی۔

    یہ بچہ اس اعتبار سے دنیا کا پہلا انسان ہے جو ایک اے آئی روبوٹ کی مدد سے اس دنیا میں آیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ٹیکنالوجی ابھی مہنگی ضرور ہے، لیکن وقت کے ساتھ اس کی لاگت میں کمی ممکن ہے، اور یہ طریقہ کار ان بے اولاد جوڑوں کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے جو روایتی طریقوں سے والدین نہیں بن پا رہے۔

    یہ پیش رفت جدید سائنس اور مصنوعی ذہانت کے اشتراک کا ایک حیرت انگیز مظہر ہے، جو طبی دنیا میں انقلابی تبدیلیوں کی نوید دے رہا ہے۔

  • یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی خود مرمت کرنے والی اور لچکدار لیتھیم بیٹری ایجاد

    یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی خود مرمت کرنے والی اور لچکدار لیتھیم بیٹری ایجاد

    یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے سائنسدانوں نے ایک انقلابی لیتھیم بیٹری تیار کر لی ہے جو نہ صرف کھنچنے اور مڑنے کے قابل ہے بلکہ خود کو مرمت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ یہ جدید بیٹری خاص طور پر نرم روبوٹس (Soft Robots) اور پہننے کے قابل الیکٹرانک آلات (Wearable Devices) کے لیے ایک بڑی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ بیٹری زہریلے مادوں سے پاک ہے اور اسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ چاقو سے کٹنے، پنکچر ہونے یا موڑے جانے کے باوجود بھی اپنا کام جاری رکھتی ہے۔ اس منفرد بیٹری کی تیاری میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے علاوہ جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور ہانگ کانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین بھی شامل ہیں۔

    تحقیقی جریدے “سائنس ایڈوانسز” میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس بیٹری نے 500 مرتبہ چارج اور ڈسچارج ہونے کے بعد بھی اپنی کارکردگی برقرار رکھی۔ بیٹری کی جیلی جیسی ساخت اسے نہایت لچکدار بناتی ہے۔ اس میں استعمال کیا گیا خاص پولیمر پانی کے مالیکیولز اور لیتھیم آئنز کے ساتھ مضبوطی سے جُڑتا ہے، جس سے نہ صرف پانی بیٹری کے اندر محفوظ رہتا ہے بلکہ آئنز کا خطرناک اخراج بھی روکا جا سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس بیٹری میں استعمال ہونے والا الیکٹرولائٹ مکمل طور پر ماحول دوست ہے اور اس کی وولٹیج کارکردگی 3.11 وولٹ تک مستحکم رہی۔ سائنسی تجربے کے دوران اس بیٹری کو ایک سرکٹ بورڈ سے جوڑ کر ایل ای ڈی لائٹس جلائی گئیں، جو ایک ماہ سے زائد عرصے تک بغیر کسی مسئلے کے چلتی رہیں۔

    یہ نئی بیٹری نہ صرف سافٹ روبوٹکس بلکہ پہننے کے قابل ٹیکنالوجی میں ایک اہم سنگِ میل سمجھی جا رہی ہے کیونکہ یہ معمولی نقصان کے بعد بھی خود کو بحال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور مستحکم توانائی فراہم کرتی ہے۔

  • زمین سے باہر زندگی کے آثار: K2-18b سیارے پر حیران کن دریافت

    زمین سے باہر زندگی کے آثار: K2-18b سیارے پر حیران کن دریافت

    غیر ملکی سائنسدانوں نے ایک اہم پیشرفت میں زمین کے علاوہ ایک دور دراز سیارے پر زندگی کے ممکنہ آثار دریافت کر لیے ہیں، جسے اب تک کا سب سے مضبوط اشارہ قرار دیا جا رہا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق یہ آثار سیارہ K2-18b پر ملے ہیں، جو زمین سے 120 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور ایک دوسرے ستارے کے گرد گردش کر رہا ہے۔ یہ سیارہ ہمارے نظام شمسی سے باہر ہے۔

    محققین نے جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے K2-18b کے ماحول میں دو اہم گیسوں، ڈائمتھائل سلفائیڈ (DMS) اور ڈائمتھائل ڈسلفائیڈ (DMDS) کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔ زمین پر یہ گیسیں عام طور پر سمندری مائیکرو جانداروں جیسے فائٹوپلانکٹن سے پیدا ہوتی ہیں، جو مائکروبیل حیات کی موجودگی کا مظہر ہیں۔

    اگرچہ سائنسدانوں نے واضح کیا ہے کہ یہ دریافت براہ راست زندگی کا ثبوت نہیں بلکہ حیاتیاتی عمل کی ممکنہ موجودگی کی طرف ایک مضبوط اشارہ ہے، تاہم یہ ایک نئی امید اور فلکیاتی تحقیق میں پیشرفت کی علامت ہے۔

    کیمبرج یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے معروف فلکیاتی طبیعیات دان نکو مدھوسودھن، جو اس تحقیق کے مرکزی مصنف ہیں، نے کہا:

    “یہ پہلا موقع ہے کہ ہمیں کسی اجنبی دنیا سے ایسے اشارے ملے ہیں جو ممکنہ طور پر حیات کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔”

    انہوں نے مزید کہا:

    “یہ دریافت نظام شمسی سے باہر زندگی کی تلاش میں ایک اہم تبدیلی کا لمحہ ہے۔ ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکنہ قابل رہائش سیاروں میں حیاتیاتی نشانات کی شناخت ممکن ہے۔”

    ماہرین کے مطابق، یہ دریافت فلکیات میں مشاہداتی دور کی طرف ایک قدم ہے، جہاں دور دراز سیاروں کے ماحول کا بغور مطالعہ کر کے زندگی کے امکانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم، سائنسدانوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ان اشاروں کی تصدیق کے لیے مزید مشاہدات اور تحقیق درکار ہے۔

  • حکومت کا آئی ٹی شعبے میں بڑے منصوبوں کا اعلان، اسلام آباد میں سپر ایپ اور آئی ٹی پارک کا قیام

    حکومت کا آئی ٹی شعبے میں بڑے منصوبوں کا اعلان، اسلام آباد میں سپر ایپ اور آئی ٹی پارک کا قیام

    اسلام آباد میں منعقدہ “لیڈرز ان اسلام آباد بزنس سمٹ” سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کام شزہ فاطمہ نے آئی ٹی کے مختلف شعبوں میں بڑے منصوبوں کا اعلان کیا۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا تیزی سے مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، اور اگر پاکستان نے خود کو ہم آہنگ نہ کیا تو پیچھے رہ جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ ٹیکنالوجی اب زراعت، تعلیم، صحت، کامرس اور پیداوار سمیت ہر شعبے میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔

    شزہ فاطمہ نے کہا کہ پاکستان کی آئی ٹی مارکیٹنگ پر ہر ایک ڈالر 49 ڈالر کماتا ہے، اور حکومت کا ہدف 25 ارب ڈالر کی آئی ٹی ایکسپورٹ حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ 28 اور 29 اپریل کو اسلام آباد میں ڈیجیٹل غیر ملکی سرمایہ کاری سمٹ کا انعقاد کیا جائے گا جس میں سعودی عرب تعاون کرے گا۔

    وفاقی وزیر نے بتایا کہ اسلام آباد کے لیے ایک “سپر ایپ” تیار کی جا رہی ہے جبکہ “اسمارٹ اسلام آباد” کا پائلٹ پروجیکٹ بھی شروع کیا جا رہا ہے، جس کے تحت بزنس کی آن لائن رجسٹریشن اور اجازت آسان بنائی جائے گی، جیسا کہ چین کے شہر شیزن میں ہوتا ہے۔

    شزہ فاطمہ نے نوجوانوں کو ملک کا قیمتی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت تخلیقی صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں کی مکمل معاونت کر رہی ہے۔

  • جیرڈ آئزک مین کی مریخ مشن کو ترجیح، ناسا کی نئی سمت کا اعلان

    جیرڈ آئزک مین کی مریخ مشن کو ترجیح، ناسا کی نئی سمت کا اعلان

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے نامزد سربراہ جیرڈ آئزک مین نے مریخ پر انسانی مشن کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔

    امریکی سینیٹ کمیٹی میں پیشی کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد کردہ ارب پتی تاجر جیرڈ آئزک مین نے مستقبل کے خلائی منصوبوں اور اپنی ترجیحات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ:

    “میں ناسا کے مریخ مشن کو ترجیح دینا چاہتا ہوں، اور ٹرمپ بھی امریکی خلابازوں کو مریخ پر بھیجنے کو اہمیت دیں گے۔”

    یاد رہے کہ ناسا کا “آرٹیمس” چاند مشن ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں متعارف کروایا گیا تھا، تاہم بعد ازاں ٹرمپ انتظامیہ نے مریخ پر براہِ راست جانے کی خواہش کا اظہار کیا، جس سے یہ خدشات جنم لینے لگے کہ اگر امریکا نے چاند کی سطح پر اپنا وجود مستحکم نہ کیا تو چین یا دیگر طاقتیں وہاں خلا کو پُر کر سکتی ہیں۔

    ایلون مسک، جو اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص ہیں اور اسپیس ایکس کے بانی و سربراہ بھی ہیں، طویل عرصے سے مریخ پر انسانی بستی بسانے کے حامی رہے ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ انسان کو ایک ملٹی پلینٹری (کئی سیاروں پر آباد) مخلوق بنایا جائے۔
    یہ خیال اب مزید تقویت پا گیا ہے کیونکہ ایلون مسک ٹرمپ کے قریبی اتحادی اور غیر رسمی مشیر کے طور پر بھی سامنے آ چکے ہیں۔

    جیرڈ آئزک مین نے کمیٹی میں یہ بھی کہا کہ:

    “ہمارے پاس چاند پر واپسی اور وہاں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی مکمل صلاحیت ہونی چاہیے تاکہ سائنسی، اقتصادی اور قومی سلامتی کے فوائد حاصل کیے جا سکیں۔”

    ناسا کے نئے ممکنہ سربراہ اور ایلون مسک کے مریخ مشن سے وابستہ نظریات، مستقبل میں امریکا کی خلائی حکمتِ عملی کو چاند سے مریخ کی طرف موڑنے کا اشارہ دے رہے ہیں، جس کے عالمی خلائی دوڑ پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

  • ٹک ٹاک نوٹس 8 مئی کو بند، صارفین کو لیمن8 اپ پر منتقل ہونے کا مشورہ

    ٹک ٹاک نوٹس 8 مئی کو بند، صارفین کو لیمن8 اپ پر منتقل ہونے کا مشورہ

    مختصر دورانیے کی ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی انسٹاگرام جیسی فوٹو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک نوٹس کو 8 مئی سے بند کر رہی ہے۔

    ٹیکنالوجی ویب سائٹ ٹیک کرنچ کے مطابق یہ ایپ گزشتہ سال کینیڈا، آسٹریلیا اور ویتنام میں آزمائشی بنیادوں پر متعارف کرائی گئی تھی، مگر ایک سال بعد ہی اسے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

    ٹک ٹاک انتظامیہ نے صارفین کو آگاہ کرنا شروع کر دیا ہے اور انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اب بائٹ ڈانس کی ہی دوسری ایپ “لیمن8” استعمال کریں، جو ٹک ٹاک نوٹس جیسی خصوصیات کی حامل ہے۔

    ٹک ٹاک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ:

    “ہم ٹک ٹاک نوٹس کے تجربات اور صارفین کی رائے کو لیمن8 میں شامل کر رہے ہیں تاکہ ایک بہتر فوٹو شیئرنگ پلیٹ فارم فراہم کیا جا سکے جو ٹک ٹاک کے مجموعی تجربے کو مزید بہتر بنائے۔”

    اگرچہ کمپنی نے ایپ بند کرنے کی واضح وجہ نہیں بتائی، لیکن غالب امکان یہی ہے کہ صارفین کی کم دلچسپی اس فیصلے کی بنیاد بنی۔ دوسری جانب لیمن8 کو دسمبر 2024 تک دنیا بھر میں 1 کروڑ 25 لاکھ ماہانہ فعال صارفین حاصل ہو چکے تھے۔

    ٹک ٹاک نوٹس کے صارفین کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنا ڈیٹا جلد از جلد ڈاؤن لوڈ کر لیں اور اپنی تخلیقی سرگرمیاں لیمن8 پر جاری رکھیں۔ کمپنی نے بتایا کہ:

    “لیمن8 ایک لائف اسٹائل ایپ ہے جو نہ صرف ٹک ٹاک نوٹس جیسا تجربہ فراہم کرتی ہے بلکہ اس میں مزید فیچرز بھی شامل ہیں۔”

    یاد رہے کہ لیمن8 کی ابتدا 2020 میں جاپان سے ہوئی تھی اور بعد ازاں یہ ایپ امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی متعارف کرائی گئی۔
    ٹک ٹاک پر ممکنہ امریکی پابندیوں کے پیشِ نظر، بائٹ ڈانس لیمن8 کو متبادل پلیٹ فارم کے طور پر بھی سامنے لا رہا ہے۔ گزشتہ نومبر میں کمپنی نے لیمن8 کو ٹک ٹاک اکاؤنٹ سے براہِ راست منسلک کرنے کی سہولت بھی متعارف کرائی تھی، جس سے دونوں ایپس کے درمیان فوٹو مواد شیئر کرنا ممکن ہو گیا تھا۔

    اب جب کہ ٹک ٹاک پر پابندی کی نئی ڈیڈ لائن 5 اپریل کو گزر چکی ہے، کمپنی نے لیمن8 کی پروموشن میں مزید تیزی لاتے ہوئے اسے صارفین کے لیے نیا اور متبادل پلیٹ فارم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

  • مصنوعی ذہانت کے ذریعے پرندے کی پہلی کامیاب پیدائش: بھارت کی بڑی پیش رفت

    مصنوعی ذہانت کے ذریعے پرندے کی پہلی کامیاب پیدائش: بھارت کی بڑی پیش رفت

    آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا رہی ہے، اور اب دنیا میں پہلی بار مصنوعی ذہانت کے ذریعے ایک پرندے کی پیدائش ہو چکی ہے۔

    یہ ایک بڑی پیش رفت ہے جو جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سامنے آئی ہے، جہاں ایک خطرے سے دوچار پرندے کو اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے پیدا کیا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق، یہ کارنامہ بھارت میں انجام دیا گیا ہے، جس نے دنیا کا پہلا ملک بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے جو مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے خطرے سے دوچار عظیم بھارتی بسٹرڈ کی کامیابی کے ساتھ افزائش کر رہا ہے۔

    چھ مہینے پہلے، اسی AI کی مدد سے پہلی بار ایک چوزے کی پیدائش ہوئی تھی۔ اب اس تازہ ترین کامیابی نے اس انتہائی خطرے سے دوچار پرندے کے تحفظ کی امیدوں کو نئی روشنی دی ہے۔

    16 مارچ کو، اے آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے انسیمینیشن کے بعد، راجستھان کے کنزرویشن بریڈنگ سینٹر میں ٹونی نامی مادہ پرندے نے انڈا دیا، جس کے نتیجے میں سیزن کا آٹھواں چوزہ پیدا ہوا۔

    اب گوڈاون بریڈنگ سینٹر میں گوڈاون کی تعداد بڑھ کر 52 ہو چکی ہے، جو اس پرندے کی بقا کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کی علامت معلوم ہوتی ہے۔

    ڈی ایف او کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل فنڈ فار ہبارا کنزرویشن فاؤنڈیشن، ابوظبی (آئی ایف ایچ سی) میں تلور پر اس طرح کی کوششیں جاری ہیں۔

  • ورچوئل ریئلٹی میں ذائقے کا تجربہ ممکن، سائنسدانوں نے حیرت انگیز ڈیوائس تیار کرلی

    ورچوئل ریئلٹی میں ذائقے کا تجربہ ممکن، سائنسدانوں نے حیرت انگیز ڈیوائس تیار کرلی

    اب ورچوئل ریئلٹی کے ذریعے کھانے کے ذائقے کا تجربہ کرنا ممکن ہو گیا ہے، کیونکہ سائنسدانوں نے ایک شاندار ڈیوائس تیار کی ہے۔

    تصور کریں کہ آپ بغیر ایک نوالہ کھائے کیک کا ذائقہ لے سکتے ہیں! یہ حیرت انگیز ڈیوائس ورچوئل رئیلٹی (VR) میں ذائقے کو محسوس کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔

    اس جدید انٹر فیس ڈیوائس کا نام ای۔ٹیسٹ (e-Taste) ہے، اور اسے اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے تیار کیا ہے۔

    آرکیٹیکٹس کی مدد کے لیے الگورتھمک VR ڈیزائن

    یہ ڈیوائس سینسرز اور کیمیکل ڈسپنسرز کی مدد سے ذائقے کو محسوس کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔

    انٹر فیس ڈیوائس سینسرز اور وائرلیس کیمیکل ڈسپنسرز کے ذریعے کام کرتی ہے، جو چکھنے کی حس (Gustation) کو ڈیجیٹل طور پر متحرک کرتی ہیں۔

    یہ سینسرز گلوکوز اور گلوٹامیٹ مالیکیولز کو شناخت کر سکتے ہیں، جو پانچ بنیادی ذائقے فراہم کرتے ہیں: میٹھا، کھٹا، نمکین، کڑوا، اور اومامی (Umami) یعنی خوش ذائقہ پروٹین والا ذائقہ۔

    جب کوئی شخص ذائقے کا تجربہ کرنا چاہتا ہے، تو یہ سینسر برقی سگنلز کے ذریعے ڈیٹا کو ایک ریموٹ ڈیوائس تک پہنچاتے ہیں، جو پھر کیمیکل محلول کے ذریعے اسے دوبارہ تخلیق کرتا ہے۔

    اس نظام میں ایک چھوٹا الیکٹرو میگنیٹک پمپ شامل ہے، جو کیمیکل محلول کو ایک خاص جیل پرت کے ذریعے منہ میں منتقل کرتا ہے۔

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~