Connect with us

news

مصنوعی ذہانت کے ذریعے پرندے کی پہلی کامیاب پیدائش: بھارت کی بڑی پیش رفت

Published

on

مصنوعی ذہانت

آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا رہی ہے، اور اب دنیا میں پہلی بار مصنوعی ذہانت کے ذریعے ایک پرندے کی پیدائش ہو چکی ہے۔

یہ ایک بڑی پیش رفت ہے جو جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سامنے آئی ہے، جہاں ایک خطرے سے دوچار پرندے کو اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے پیدا کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، یہ کارنامہ بھارت میں انجام دیا گیا ہے، جس نے دنیا کا پہلا ملک بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے جو مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے خطرے سے دوچار عظیم بھارتی بسٹرڈ کی کامیابی کے ساتھ افزائش کر رہا ہے۔

چھ مہینے پہلے، اسی AI کی مدد سے پہلی بار ایک چوزے کی پیدائش ہوئی تھی۔ اب اس تازہ ترین کامیابی نے اس انتہائی خطرے سے دوچار پرندے کے تحفظ کی امیدوں کو نئی روشنی دی ہے۔

16 مارچ کو، اے آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے انسیمینیشن کے بعد، راجستھان کے کنزرویشن بریڈنگ سینٹر میں ٹونی نامی مادہ پرندے نے انڈا دیا، جس کے نتیجے میں سیزن کا آٹھواں چوزہ پیدا ہوا۔

اب گوڈاون بریڈنگ سینٹر میں گوڈاون کی تعداد بڑھ کر 52 ہو چکی ہے، جو اس پرندے کی بقا کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کی علامت معلوم ہوتی ہے۔

ڈی ایف او کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل فنڈ فار ہبارا کنزرویشن فاؤنڈیشن، ابوظبی (آئی ایف ایچ سی) میں تلور پر اس طرح کی کوششیں جاری ہیں۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کو یقین دہانی کرادی

Published

on

مولانا فضل الرحمان


جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان تحریک انصاف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی جماعت خیبرپختونخوا حکومت کے خلاف کسی تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہیں بنے گی۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے مولانا فضل الرحمان سے خصوصی ملاقات کی تھی جس میں صوبے میں سیاسی صورتحال پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے واضح الفاظ میں کہا کہ ان کی جماعت کو نہ صوبائی حکومت گرانے میں دلچسپی ہے اور نہ ہی اسے بچانے میں، بلکہ وفاق یا صوبے میں اقتدار حاصل کرنا ان کی ترجیح نہیں ہے۔ انہوں نے خیبرپختونخوا حکومت پر ناکامی، بد انتظامی، کرپشن اور امن و امان کی خراب صورتحال کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ ان حالات میں خود تحریک انصاف کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ حکومت کو جاری رکھنا مناسب ہے یا نہیں۔

ذرائع کے مطابق مولانا کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ جے یو آئی (ف) کسی بھی اپوزیشن کی سازش کا حصہ نہیں بنے گی جو کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت گرانے کے لیے ہو۔ واضح رہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلوں اور سیاسی کشیدگی کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آ رہی تھیں کہ صوبائی حکومت کو گرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جس کے پیش نظر پی ٹی آئی نے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کیا اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایسے کسی عمل کا حصہ نہ بنیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے بھی اس حوالے سے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ حکومت گرانے کی ایک منظم سازش جاری تھی، لیکن ان کے پاس اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار موجود ہے اور وہ کسی بھی وقت یہ قدم اٹھا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا میں مالی ایمرجنسی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ سب عمران خان کو جیل میں رکھنے اور پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری کرنے کے بعد ہوا۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے عوام نے اپنے مینڈیٹ کی حفاظت کی ہے اور وہ تمام اداروں کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ختم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔

جاری رکھیں

news

جسٹس منصور علی شاہ کا جوڈیشل کمیشن کو خط

Published

on

جسٹس منصور علی شاہ


سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کو ایک اہم قانونی نکتہ اٹھاتے ہوئے خط ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے ججز کی سنیارٹی کے تعین کے عمل پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ خط انہوں نے جوڈیشل کمیشن کے حالیہ اجلاس سے ایک روز قبل تحریر کیا تھا۔ خط کے مندرجات میں جسٹس منصور علی شاہ نے مؤقف اپنایا کہ ججز کی سنیارٹی جیسے اہم اور حساس معاملے پر کسی قسم کی مشاورت نہ کرنا آئینی تقاضوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت صدرِ مملکت چیف جسٹس سے مشاورت کے پابند تھے، مگر اس معاملے میں مشاورت کے بجائے جلد بازی میں یکطرفہ فیصلہ کر لیا گیا، حالانکہ ججز کی سنیارٹی کا معاملہ پہلے ہی انٹرا کورٹ اپیل میں زیر سماعت ہے، اس لیے اس پر کسی بھی فیصلے سے قبل باقاعدہ مشاورت ضروری تھی۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ جسٹس منصور علی نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی کارروائی پر بھی اعتراض اٹھایا اور اجلاس کے دوران انہوں نے مؤقف اپنایا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلہ پہلے ہونا چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے بھی ان کے اس مؤقف سے اتفاق کیا، جب کہ تحریک انصاف کے دو ممبران اور خیبرپختونخوا کے وزیر قانون نے بھی جسٹس منصور علی شاہ کی رائے کی حمایت کی۔ یہ معاملہ نہ صرف آئینی اور قانونی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں پر شفافیت اور مشاورت کے اصولوں کے تناظر میں بھی قابل غور ہے۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~