news
حکومت نے پیٹرولیم لیوی میں اضافہ کر دیا، عوام کو ریلیف نہ ملا
عوام کے لیے ایک اور بری خبر سامنے آگئی ہے، حکومت نے پیٹرولیم لیوی کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، پیٹرول پر پیٹرولیم لیوی میں 8 روپے 2 پیسے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا گیا ہے، جس کے بعد پیٹرول پر لیوی کی مجموعی شرح 78 روپے 2 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ اسی طرح ڈیزل پر پیٹرولیم لیوی میں 7 روپے 1 پیسہ کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد ڈیزل پر لیوی 77 روپے 1 پیسہ فی لیٹر ہو گئی ہے۔
یہ اضافہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کیا گیا ہے۔ حکومتی فیصلے پر تنقید کی جا رہی ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود اس کمی کا فائدہ عوام کو منتقل کرنے کی بجائے پیٹرولیم لیوی میں اضافہ کر دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق، وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیٹرولیم ڈویژن کی سفارش پر پیٹرولیم لیوی آرڈیننس 1961 میں ترمیم کی منظوری دی گئی۔ وزیراعظم نے اجلاس میں اعلان کیا تھا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کم ہونے کے باعث حاصل ہونے والی مالی گنجائش بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جائے گی، خصوصاً بلوچستان کی اہم قومی شاہراہ کو موٹروے کے معیار پر دو رویہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اگر پیٹرولیم لیوی میں اضافہ نہ کیا جاتا تو پیٹرول 8 روپے اور ڈیزل 7 روپے فی لیٹر سستا کیا جا سکتا تھا۔ تاہم، حکومت نے گزشتہ روز جاری کردہ نوٹیفکیشن میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اعلامیہ کے مطابق، پیٹرول کی قیمت 254 روپے 63 پیسے اور ڈیزل کی قیمت 258 روپے 64 پیسے فی لیٹر پر برقرار رکھی گئی۔
یاد رہے کہ عالمی منڈی میں برینٹ خام تیل کی قیمت 64.71 ڈالر فی بیرل تک گر گئی ہے، جس سے پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات 8 سے 10 روپے فی لیٹر تک سستی ہونے کا امکان تھا، مگر حکومت نے لیوی بڑھا کر اس ریلیف کو عوام تک پہنچنے سے روک دیا۔
news
وزیراعظم شہباز شریف کا زرعی شعبے میں اصلاحات کا اعلان
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت زرعی شعبے کی ترقی سے متعلق ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں زرعی اصلاحات، پیداوار میں اضافے، انفراسٹرکچر کی بہتری، کاروبار دوست ضوابط، اور کسانوں کی آسان زرعی قرضوں تک رسائی سے متعلق تجاویز پیش کی گئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ زرعی شعبے میں پائیدار اصلاحات سے ملکی معیشت کو فروغ ملے گا، اور اس مقصد کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے زرعی فنانسنگ کا نظام متعارف کروایا جائے گا۔ انہوں نے زرعی ترقیاتی بینک میں فوری اصلاحات کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ شفاف انداز میں کسانوں کو قرضوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئندہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) میں زرعی منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی، اور یہ منصوبے میکینائزیشن، ڈیجیٹائزیشن، کسانوں کی قرضوں تک آسان رسائی اور سازگار کاروباری ماحول کے گرد گھومیں گے۔ انہوں نے زراعت کے ساتھ ساتھ لائیوسٹاک سیکٹر کی اصلاحات پر بھی توجہ دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں مل کر جامع حکمت عملی مرتب کریں گی تاکہ کسانوں کو براہِ راست فائدہ پہنچے، پیداوار میں اضافہ ہو اور پیداواری لاگت کم ہو۔
وزیراعظم نے زرعی اجناس کی ذخیرہ گنجائش بڑھانے کے لیے قلیل اور طویل مدتی حکمت عملی وضع کرنے پر زور دیا اور کہا کہ زرعی زوننگ اور ویلیو چین کی حکمت عملی سے برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے چھوٹے کسانوں کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی متعارف کروانے اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے کسانوں کو جدید معلومات فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ “نیشنل ایگریکلچر انوویشن اینڈ گروتھ ایکشن پلان” کے تحت کسانوں کی آمدنی بڑھانے اور پیداوار میں اضافے کے لیے جامع اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کسانوں کو آسان قرضوں تک رسائی فراہم کرنے والے منصوبے کا جلد افتتاح کیا جائے گا۔ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ زرعی مصنوعات میں ویلیو ایڈیشن سے نہ صرف کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہو گا بلکہ قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کیا جا سکے گا۔ اجلاس میں وفاقی وزرا، نجی شعبے کے ماہرین اور اعلیٰ حکام شریک تھے
news
آڈیٹر جنرل رپورٹ: 300 ارب کی گندم امپورٹ بدنیتی پر مبنی
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ آڈیٹر جنرل رپورٹ میں وفاقی حکومت کے مالی سال 2023-24 کے دوران کیے گئے 300 ارب روپے کی گندم امپورٹ کے فیصلے کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ فیصلہ ناقابلِ اعتماد اور مبالغہ آمیز ڈیٹا کی بنیاد پر کیا گیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا بلکہ ملکی گندم کے کاشتکار بھی بری طرح متاثر ہوئے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس مالی سال میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ گندم پیداوار ہوئی تھی، اس کے باوجود طلب کو جان بوجھ کر بڑھا کر پیش کیا گیا تاکہ درآمد کا جواز پیدا کیا جا سکے۔
آڈیٹر جنرل رپورٹ کے مطابق حکومت نے 24 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی تھی، لیکن حقیقت میں 35 لاکھ ٹن سے زائد گندم درآمد کی گئی۔ پنجاب اور سندھ جیسے بڑے زرعی صوبوں نے فلور ملز کو گندم کی کم مقدار فراہم کر کے مارکیٹ میں مصنوعی قلت اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا ماحول پیدا کیا۔ وزارت غذائی تحفظ اور وزارت تجارت پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے نجی شعبے کو فائدہ پہنچانے کے لیے درآمدی عمل کو جان بوجھ کر تاخیر کا شکار بنایا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سرکاری شعبے کی گندم خریداری نہ صرف مقررہ ہدف سے 25 فیصد کم رہی بلکہ آئندہ سال 2024-25 میں یہ کمی 40 فیصد تک جا پہنچی، حتیٰ کہ پنجاب نے ایک دانہ گندم بھی نہیں خریدا۔ کم از کم امدادی قیمت کے بروقت اعلان میں تاخیر سے کسانوں کو قیمت کے تحفظ کی پالیسی سے محروم رکھا گیا۔ مزید یہ کہ گندم فصل کی کٹائی سے عین قبل امپورٹ کی گئی گندم نجی درآمد کنندگان نے ذخیرہ کی، کیونکہ حکومت کے پاس صرف پانچ لاکھ میٹرک ٹن کی ذخیرہ گنجائش موجود تھی۔
رپورٹ میں اسٹریٹجک ذخائر کے سرکاری دعووں کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا گیا کہ افغانستان کی طلب کو بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے ملکی کھپت میں شامل کیا گیا، اور مقامی کاشتکاروں کے حقوق کو ذخیرہ اندوزوں اور درآمد کنندگان کے مفاد میں قربان کیا گیا۔ یہ رپورٹ بدنام زمانہ گندم اسکینڈل کی سنگینی کی باقاعدہ سرکاری تصدیق ہے۔
- news3 months ago
رانا ثناءاللہ کا بلاول کے بیان پر ردعمل: سندھ کے پانی کا ایک قطرہ بھی استعمال نہیں کریں گے
- news3 months ago
14 سالہ سدھارتھ ننڈیالا کی حیران کن کامیابی: دل کی بیماری کا پتہ چلانے والی AI ایپ تیار
- news2 months ago
ماؤنٹ ایورسٹ یا مونا کیا؟ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ کون سا ہے؟
- news2 months ago
سی سی آئی کا دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ ختم کرنے کا فیصلہ