Connect with us

news

بجلی کےاعلی ٹیرف غیر پائدار ٹیکس اور لیکوڈٹی کی کمی برامداد کو نقصان پہنچنے والے اہم عوامل

Published

on

صنعتی شعبہ ملک کی ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعت نے بجلی کے اعلی ٹیرف غیر پائدار ٹیکس لیکوڈٹی کی کمی کو برامدات کو نقصان پہنچانے والے اہم عوامل قرار دیا۔
ٹیکسٹائل سے متعلق ایک ورچول میٹنگ میں وزیر تجارت جام کمال خان کی قیادت میں وزیرات تجارت کی ٹیم کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ افرادنے خیالات کا اظہار کیا گیا۔
متعلقہ ایم او سی حکام نے ملبوسات میک اپ اور ٹیکنیکل ٹیکسٹائل کی کونسل کے ممبران کے ساتھ ٹیکسٹائل فائبر یارن اور فیبرکس کی نمائندگی کرنے والی دیگر کونسلوں کے ساتھ بات چیت کی جس میں ٹیکسٹائل ملبوسات کی صنعت پر اثر انداز ہونے والے اہم مسائل کو حل کرنے پر توجہ دی گئی۔


پاکستان کی معیشت ٹیکسٹائل سیکٹر کی برامدات سخت ٹیکسوں اور توانائی کے زدہ اخراجات کے درمیان جدوجہد کر رہی ہے دونوں کونسلوں کے اراکین نے برامدات میں رکاوٹ پیدا کرنے والے کئی مسائل کے نشاندہی کی جن میں توانائی کی اعلی ٹیرف غیر پائدار ٹیکس لیکویڈٹی کی کمی قانونی ضابطے کے احکامات سے متعلق پیچیدگیاں زیادہ قرض لینے کی لاگت کے ساتھ محدود برامدی فائنانسنگ اور ٹیرف سے متعلق چینلجز بھی شامل ہیں
میٹنگ کے شرکا نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے تاکہ برامدات کی رفتار کو برقرار رکھا جا سکے میٹنگ میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور نئے پلگ اینڈ پلے گارمنٹ سٹیز کے قیام کی ضرورت پر بھی بات کی گئی جنہیں اس شعبے میں ترقی کے فروغ دینے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کونسل کے اراکین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ موجودہ جغرافیائی سیاسی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے پاس بین الاقوامی منڈی کے بڑے حصے پر قبضہ کرنے کا منفرد موقع ہے انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی پالیسیاں بنائیں جس سے ملک کے ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل برامدات کو تقویت ملے وزیر نے ان کے نقطہ نظر کو تسلیم کیا اور کہا کہ شعبے کو ہموار کرنے عالمی مسابقت برامدات کو بڑھانےاور ان مسائل پر توجہ دی جانی چاہیے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

ندیم افضل چن کا انتباہ: گندم کی قیمت پیزے کے برابر، بحران کا خدشہ

Published

on

گندم کے ممکنہ بحران

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ندیم افضل چن نے گندم کے ممکنہ بحران پر خبردار کرتے ہوئے حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ آج کل سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے کہ ایک من گندم کی قیمت ایک پیزے کے برابر ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث کسان کی گندم کوئی خریدنے کو تیار نہیں، گندم کی قیمت دو ہزار روپے تک گر چکی ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو کسان گندم لگانا چھوڑ دے گا، اور اگر کسان گندم نہ لگائے تو پھر ملک کو دو سے تین کھرب روپے مالیت کی گندم بیرونِ ملک سے منگوانا پڑے گی۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ مزمل اسلم نے بھی گندم کی قیمتوں، ملکی شرح نمو اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی فی من قیمت میں 100 روپے کی کمی سے ملک بھر کے کسانوں کو مجموعی طور پر 75 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، جس میں صرف پنجاب کے کسانوں کا حصہ 50 ارب روپے ہے۔

مزمل اسلم نے مزید کہا کہ موجودہ نرخوں کے تحت کسانوں کو فی من 1200 روپے کا نقصان ہو رہا ہے، جس کے باعث پنجاب کے کسانوں کو 600 ارب جبکہ باقی ملک کے کسانوں کو 300 ارب روپے کا مجموعی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نقصان تقریباً 3.2 ارب ڈالر کے برابر ہے، جو اگر مقامی کسانوں کو نہ ملا تو گندم درآمد کر کے یہی رقم غیر ملکی کسانوں کو ادا کرنا پڑے گی۔

انہوں نے ملکی معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ رواں مالی سال میں ملکی شرح نمو 2.5 سے 3.0 فیصد تک رہنے کا امکان ہے جو کہ مقرر کردہ 4 فیصد ہدف سے کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے آٹھ ماہ میں صنعتی پیداوار میں 1.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ مارچ میں صنعتی پیداوار میں منفی 5.9 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ملکی زراعت اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے حالانکہ کسی قدرتی آفت کا سامنا بھی نہیں ہے۔

مزمل اسلم اور ندیم افضل چن دونوں نے حکومت سے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کسانوں کو ریلیف دیا جا سکے، اور ملک کو خوراک کے بحران سے بچایا جا سکے۔

جاری رکھیں

news

وفاقی حکومت کا مؤقف: ججز کا تبادلہ آئینی، نیا حلف ضروری نہیں

Published

on

سپریم کورٹ آف پاکستان

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں ججز سنیارٹی کیس سے متعلق اپنا تحریری جواب جمع کروا دیا ہے، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ججز کی تعیناتی اور تبادلوں کے خلاف دائر تمام درخواستیں خارج کی جائیں۔ وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں مؤقف اپنایا ہے کہ ججز کے تبادلے آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت کیے گئے ہیں اور انہیں نئی تعیناتی تصور نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا تبادلے کے بعد ججز کے لیے دوبارہ حلف اٹھانا ضروری نہیں ہے۔

حکومت نے وضاحت دی ہے کہ آئین میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ ججز کا تبادلہ عارضی ہوگا۔ ججز کے تبادلے سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی بلکہ اس سے شفافیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج کے تبادلے کے لیے صدر کا کردار محدود ہوتا ہے جبکہ اصل اختیار چیف جسٹس پاکستان، دونوں متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور متعلقہ جج کی رضامندی سے مشروط ہوتا ہے۔

وفاقی حکومت کے مطابق وزارتِ قانون نے 28 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلے کی سمری بھیجی تھی۔ جوڈیشل کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دو ججز تعینات کیے جبکہ تین آسامیاں خالی چھوڑ دی گئیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ تمام ہائی کورٹس کا حلف ایک جیسا ہوتا ہے، اس لیے تبادلہ ہو کر آنے والے ججز کو نیا حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ جج کے تبادلے سے پہلے تمام متعلقہ فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اور یہ مکمل طور پر آئینی عمل ہے۔ وفاقی حکومت نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سمیت تمام درخواست گزاروں کی درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دی جائیں۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~