Connect with us

news

پلوشہ خان کا مریم نواز پر سخت ردعمل، عظمٰی بخاری کی جوابی تنقید

Published

on

پلوشہ خان

پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ “اتنی کمزور انگلیاں ہماری بھی نہیں کہ مریم نواز کے ہاتھ میں توڑنے کے لیے دے دیں۔” انہوں نے واضح کیا کہ پنجاب کسی ایک سیاسی جماعت کی ملکیت نہیں اور ہاتھ پاؤں توڑنے جیسی زبان سیاست میں زیب نہیں دیتی۔ پلوشہ خان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہے اور ان کے نمبرز مکمل کرنے میں ہماری حمایت شامل ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم گالیاں اور جوتے کھانے کے لیے ساتھ ہیں۔

ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یاد دلایا کہ 2008 میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نواز شریف الیکشن کا بائیکاٹ کر رہے تھے، جنہیں آصف زرداری نے الیکشن میں واپس لانے کا کردار ادا کیا۔ 2014 میں آصف زرداری خود جاتی عمرہ گئے تھے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نہ پنجاب ن لیگ کا ہے نہ سندھ صرف پیپلز پارٹی کا، اور حکومت پر تنقید جمہوریت کا حصہ ہے۔

اسی موقع پر تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی نے بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سب اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا ہو کر ملک کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے مریم نواز کو “بہن” کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “یہ پنجاب، یہ پاکستان سب کا ہے۔ تکبر نہ دکھائیں، ہوش کے ناخن لیں۔”

دوسری طرف، وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمٰی بخاری نے پیپلز پارٹی اور پلوشہ خان کے بیانات پر شدید ردعمل دیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی 17 سال سندھ میں حکمرانی کے باوجود 17 بڑے عوامی فلاحی منصوبے بھی نہیں گنوا سکتی، جبکہ مریم نواز نے صرف ڈیڑھ سال میں 90 منصوبے شروع کیے، جن میں سے 50 مکمل ہو چکے ہیں۔ عظمٰی بخاری نے بتایا کہ مریم نواز کی جانب سے “اپنی چھت اپنا گھر” اسکیم کے تحت 90 ہزار گھر، 80 ہزار اسکالرشپس، 9,500 ٹریکٹرز کی تقسیم، 27 ہزار الیکٹرک بائیکس، جدید لیپ ٹاپس، کینسر اور کارڈیالوجی اسپتال، الیکٹرک بسیں، اور مفت ادویات کی سہولت جیسے انقلابی اقدامات کیے جا چکے ہیں۔

عظمٰی بخاری نے زور دیا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت صرف دعووں پر نہیں بلکہ عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہے، اور مریم نواز کی قیادت میں پنجاب تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ

Published

on

By

کینیڈا

کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔

پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز

Published

on

By

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔

عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟

جاری رکھیں

Trending

Copyright © 2024 Sahafat Group of Publications . Powered by NTD.

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~