news
اوپن اے آئی اور پرپلیکسیٹی نے گوگل سرچ کو ٹکر
گوگل سرچ کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ دو معروف آرٹیفیشل انٹیلیجنس کمپنیاں، اوپن اے آئی اور پرپلیکسیٹی، نئے AI براؤزرز متعارف کرانے جا رہی ہیں۔ یورو نیوز کے مطابق، پرپلیکسیٹی نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ اس نے “کامیٹ” کے نام سے ایک نیا سرچ براؤزر متعارف کرایا ہے، جو میک اور ونڈوز صارفین کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ براؤزر فی الحال صرف ان افراد کو دستیاب ہے جنہوں نے پرپلیکسیٹی میکس کو سبسکرائب کیا ہوا ہے یا جنہیں نئے پلیٹ فارم کی آزمائش کی دعوت دی گئی ہے۔
کامیٹ براؤزر کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایک طاقتور AI اسسٹنٹ موجود ہے، جو نہ صرف کلک اور ٹائپنگ جیسے کاموں کو خود انجام دے سکتا ہے بلکہ صارفین کی ای میلز اور کلینڈر کو بھی منظم کرتا ہے اور فیڈ پر اہم خبریں نمایاں کرتا ہے۔ ایک تجربے میں، صارف نے براؤزر سے دو مختلف پکوانوں کے لیے گروسری لسٹ حاصل کی اور ان دونوں کو ایک ساتھ پکانے کی ترکیب بھی پوچھی، جس پر براؤزر نے فوری اور مربوط جواب فراہم کیا۔
دوسری طرف، اوپن اے آئی کی جانب سے بھی ایک نئے براؤزر پر کام جاری ہے، تاہم اس بارے میں ابھی زیادہ معلومات سامنے نہیں آئیں۔ ان دونوں AI براؤزرز کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گوگل کو دنیا بھر میں قانونی اور ریگولیٹری چیلنجز کا سامنا ہے۔ حال ہی میں یورپی یونین کی عدالت کے ایڈووکیٹ جنرل نے گوگل پر 4.1 ارب یورو کے جرمانے کے خلاف اپیل مسترد کرنے کی سفارش کی ہے، جبکہ امریکہ، جاپان، کینیڈا اور برطانیہ میں بھی گوگل کے خلاف اجارہ داری قائم کرنے کے الزامات کی تحقیقات جاری ہیں۔
یہ پیش رفت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ گوگل سرچ کو مستقبل میں AI پر مبنی نئے پلیٹ فارمز سے سخت مسابقت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
news
جسٹس اطہر من اللہ: پولیس اسٹیٹ کا تاثر خطرناک
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ نے پولیس کے غیر جانبدار کردار پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کا طاقتور طبقہ پولیس کو کنٹرول کر رہا ہے، جس کی وجہ سے پولیس اسٹیٹ کا تاثر جنم لے رہا ہے، جو کہ ایک انتہائی خطرناک علامت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ پولیس عوام کی خدمت کے لیے کام کرے، نہ کہ کسی مخصوص طبقے کے مفادات کی محافظ بنے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو قانون کے مطابق آزاد اور غیر جانبدار ہونا چاہیے، کیونکہ عوام کا پولیس پر اعتماد ہی یہ طے کرے گا کہ وہ ایک آئینی ریاست میں رہ رہے ہیں یا پولیس سٹیٹ میں۔
یہ ریمارکس جسٹس اطہر من اللہ نے قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیے، جس میں سیتا رام نامی ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا۔ یہ مقدمہ 18 اگست 2018ء کو پیش آنے والے چندر کمار کے قتل سے متعلق تھا، جس میں مدعی ڈاکٹر انیل کمار کی بروقت اطلاع کے باوجود پولیس نے دو روز بعد مقدمہ درج کیا، جسے عدالت نے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ایس ایچ او قربان علی نے تسلیم کیا کہ اطلاع پولیس ڈائری میں درج کی گئی تھی مگر مقدمہ دفعہ 154 کے تحت درج نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مقدمہ درج کرنے میں تاخیر ایک سنگین رجحان بن چکا ہے، جو نہ صرف انصاف کی نفی کرتا ہے بلکہ شواہد کے ضائع ہونے اور بے گناہوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم ہونے کا بھی سبب بنتا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ طرز عمل کمزور، غریب اور پسماندہ طبقے کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ فیصلے میں تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایت دی گئی ہے کہ قانون پر مؤثر عملدرآمد کو یقینی بنائیں، جبکہ پراسیکیوٹر جنرلز کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ شفافیت اور اعتماد کے فروغ کے لیے مؤثر ایس او پیز تشکیل دیں۔
news
آسٹریا میں پاکستانی سفارتکار کروڑوں کا غبن کر کے فرار
آسٹریا میں پاکستان کے سفارتی مشن سے کروڑوں روپے کی مالی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے، جہاں ایک سفارتی افسر سرکاری فنڈز خردبرد کر کے اپنی اہلیہ سمیت فرار ہو گیا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2020 میں ویانا میں تعینات ایک اکاؤنٹنٹ نے جعلی دستخط اور دستاویزات استعمال کرتے ہوئے 4 لاکھ 42 ہزار یورو سے زائد (تقریباً 12 کروڑ 83 لاکھ روپے) اور 1 لاکھ 34 ہزار ڈالر سے زائد (تقریباً 3 کروڑ 74 لاکھ روپے) آسٹریا سفارتخانے کے اکاؤنٹس سے نکال کر اپنے اور اپنی اہلیہ کے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر لیے۔
رپورٹ کے مطابق ملزم اور اس کی بیوی اس فراڈ کے بعد کسی نامعلوم مقام پر فرار ہو گئے، اور تاحال رقم کی ایک پائی بھی واپس نہیں لی جا سکی۔ حیران کن طور پر وزارت خارجہ نے نہ صرف معاملے کی تفصیلی انکوائری رپورٹ آڈٹ ٹیم کو دینے سے انکار کیا، بلکہ اس سنگین واقعے میں شامل دیگر ذمہ داران کے خلاف بھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
آڈیٹ رپورٹ میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ مشن کے مالیاتی معاملات کی نگرانی کرنے والے ہیڈ آف مشن، ہیڈ آف چانسری اور بینک اکاؤنٹس کے شریک دستخط کنندگان کی غفلت کیوں نظر انداز کی گئی؟ ملزم کو 17 فروری 2020 کو برطرفی کا نوٹس بھیجا گیا اور غبن شدہ رقم کی واپسی کی ہدایت بھی کی گئی، مگر نومبر 2023 تک کوئی ریکوری نہ ہو سکی۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ فروری 2024 میں معاملہ دوبارہ رپورٹ ہونے کے باوجود وزارت خارجہ نے تحقیقات کا دائرہ نہ بڑھایا اور نہ ہی ذمہ دار افسران کے خلاف کوئی قابل ذکر کارروائی کی۔
- news3 months ago
رانا ثناءاللہ کا بلاول کے بیان پر ردعمل: سندھ کے پانی کا ایک قطرہ بھی استعمال نہیں کریں گے
- news3 months ago
14 سالہ سدھارتھ ننڈیالا کی حیران کن کامیابی: دل کی بیماری کا پتہ چلانے والی AI ایپ تیار
- news2 months ago
فرحان سعید کا بھارتی پابندی پر دلچسپ ردعمل: فن سرحدوں کا محتاج نہیں
- news2 months ago
سی سی آئی کا دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ ختم کرنے کا فیصلہ