Connect with us

news

مریم نواز کی زیر صدارت ایئر پنجاب اور بلٹ ٹرین منصوبوں کی منظوری

Published

on

ایئر پنجاب

پنجاب حکومت نے صوبے کی پہلی فضائی کمپنی ’’ایئر پنجاب‘‘ اور لاہور سے راولپنڈی کے درمیان بلٹ ٹرین منصوبے کی اصولی منظوری دے دی ہے۔ لاہور میں وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں ایئر پنجاب کے منصوبے کو پیش کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایئر پنجاب کے لیے فوری طور پر چار ایئربس طیارے لیز پر حاصل کیے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ نے حکام کو ہدایت دی کہ ایئر پنجاب کو ملک کی بہترین ایئر لائن بنانے کے لیے تمام ضروری انتظامات کیے جائیں۔

اجلاس میں لاہور یلو لائن اور گوجرانوالہ ماس ٹرانزٹ لائن منصوبوں کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اس دوران جناح ٹرمینل ٹھوکر نیاز بیگ سے ہربنس پورہ تک یلو لائن منصوبے کی اسٹڈی مکمل کرنے کے لیے 30 مئی تک کی مہلت دی گئی جبکہ گوجرانوالہ ماس ٹرانزٹ لائن کے لیے 15 جون کی ڈیڈلائن مقرر کی گئی۔ اس کے علاوہ اجلاس میں ای ٹیکسی منصوبے کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔

اجلاس میں لاہور اور راولپنڈی کے درمیان بلٹ ٹرین منصوبے کی بھی اصولی منظوری دے دی گئی۔ اس حوالے سے پاکستان ریلوے کے اشتراک سے تیز رفتار بلٹ ٹرین چلانے کے مختلف امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے سینئر وزیر مریم اورنگزیب کو ریلوے حکام کے ساتھ اشتراک اور مشاورت کا ٹاسک سونپا۔ بلٹ ٹرین منصوبے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے آپشن پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

مزید یہ کہ مریم نواز نے پنجاب کے مختلف شہروں کے درمیان مزید چھ ہائی اسپیڈ ٹرین روٹس کا پلان بھی طلب کیا ہے۔ ان مجوزہ روٹس میں لاہور سے شاہدرہ اور نارووال تک، لاہور سے رائیونڈ، قصور اور پاکپتن ہوتے ہوئے لودھراں تک، شیخوپورہ سے جڑانوالہ اور شور کوٹ تک، شور کوٹ سے جھنگ اور جھنگ سے سرگودھا تک، لالہ موسیٰ سے سرگودھا براستہ ملکوال، اور فیصل آباد سے چک جھمرہ اور شاہین آباد تک کے راستے شامل ہیں۔ حکومت کا مقصد ان منصوبوں کے ذریعے صوبے میں جدید اور تیز رفتار سفری سہولیات کو فروغ دینا ہے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ

Published

on

By

کینیڈا

کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔

پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز

Published

on

By

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔

عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟

جاری رکھیں

Trending

Copyright © 2024 Sahafat Group of Publications . Powered by NTD.

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~