Connect with us

news

کریتی سینن کا گانا ‘انکھیا دے کول’ ریلیز، ریشماں کے گانے کا ری میک

Published

on

بالی وڈ کی معروف اداکارہ کریتی سینن کا نیا گانا ‘انکھیا دے کول‘ فلم “دو پتی” کے لیے ریلیز کیا گیا، لیکن مداحوں نے اسے سن کر شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ یہ گانا ٹی سیریز کے پلیٹ فارم سے پیش کیا گیا، جو پاکستانی لوک گلوکارہ ریشماں کے مشہور گانے ‘اکھیاں نو رین دے’ کا ری میک ہے۔ مداحوں کا کہنا تھا کہ اس خوبصورت کلاسک گانے کا ری میک بنا کر اس کی اصل روح اور خوبصورتی کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا، “یہ گانا مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے”، جبکہ ایک اور نے کہا، “ایک اور کلاسک گانا ری میک کی بھینٹ چڑھ گیا۔”

ریشماں، جو پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک مشہور لوک فنکارہ تھیں، کا تعلق راجھستان کے خانہ بدوش خاندان سے تھا۔ وہ موسیقی کی باضابطہ تعلیم کے بغیر سندھ اور پنجاب کے مزارات پر صوفیانہ کلام گاتی تھیں۔ ان کی آواز اور گائیکی کو پہلی بار ریڈیو پروڈیوسر سلیم گیلانی نے دریافت کیا جب وہ حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر گارہی تھیں۔ ان کا گایا ہوا مشہور گانا ‘لعل میری’ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

ریشماں کے کئی اور گانے بھی بے حد مقبول ہوئے، جن میں ‘وے میں چوری چوری’، ‘دما دم مست قلندر’، اور ‘اکھیاں نو رین دے’ شامل ہیں۔ ان کے گانے ‘لمبی جدائی’، جو 1983 میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ فلم “ہیرو” کا حصہ تھا، نے انہیں راتوں رات سپر اسٹار بنا دیا اور یہ گانا آج بھی بے حد پسند کیا جاتا ہے۔

فلم “دو پتی” کا گانا ‘انکھیا دے کول’ حال ہی میں ریلیز ہوا اور سننے والوں نے فوراً پہچان لیا کہ یہ ریشماں کے گانے کا ری میک ہے۔ اس گانے کو آئٹم سانگ کے طور پر کریتی سینن پر فلمایا گیا ہے، جس میں ان کے رقص کے مناظر نمایاں ہیں۔ تاہم، ٹی سیریز نے اس گانے کے حقیقی کریڈٹ ریشماں کو دیا ہے اور تفصیلات میں انہیں گانے کی اصل گلوکارہ بتایا ہے۔

فلم “دو پتی” 25 اکتوبر کو ریلیز ہوگی، جس میں کریتی سینن اور کاجول اہم کرداروں میں نظر آئیں گی۔ کریتی فلم میں ڈبل رول نبھائیں گی جبکہ کاجول ایک پولیس افسر کے کردار میں جلوہ گر ہوں گی، جو فلم میں سسپنس اور ڈرامہ بڑھا رہی ہیں۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

وی پی این کی رجسٹریشن کے نئے اقدامات :30 لاکھ فری لانسرز متاثر ہونے کا خدشہ چیئرمین (پاشا)

Published

on

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن (پاشا) کے چیئرمین سجاد مصطفیٰ سید نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ کے مسائل اور وی پی این کی رجسٹریشن کے نئے اقدامات کے باعث بڑی آئی ٹی کمپنیوں نے پاکستان سے باہر جانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے وی پی این کی رجسٹریشن کے لیے ایک نیا سسٹم متعارف کرایا ہے، جس کے تحت ہر یوزر کو اس بات کا انکشاف کرنا ہوگا کہ وہ کہاں سے اسٹیٹک آئی ڈی حاصل کر رہا ہے، اور پی ٹی اے اسے اجازت دے گا۔
سجاد مصطفیٰ سید نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری اس سسٹم کو مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کر پائے گی کیونکہ جب بھی کوئی شخص رجسٹریشن کے لیے کوشش کرتا ہے، اسے ایک نیا آئی پی ایڈریس ملتا ہے اور رجسٹر ہونے میں تقریباً 8 گھنٹے لگتے ہیں۔ اس سے ملک کے تقریباً 30 لاکھ فری لانسرز متاثر ہوں گے، جو ماہانہ 100 سے 200 ڈالر کماتے ہیں۔ ان فری لانسرز کو اس عمل میں اتنا وقت ضائع کرنے پر کام نہیں ملے گا، اور جب تک وہ پی ٹی اے کی اجازت نہیں حاصل کرتے، کام کا سلسلہ رک جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس صورتحال میں کوئی بھی کمپنی ایسے افراد کو کام دینے کے لیے تیار نہیں ہوگی، جس سے پاکستان کی آئی ٹی صنعت کو شدید نقصان ہو سکتا ہے۔چیئرمین پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن (پاشا)، سجاد مصطفیٰ سید نے وی پی این کی رجسٹریشن کے نئے نظام پر مزید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب پاکستانی فری لانسرز وی پی این کے ذریعے غیر ملکی کمپنیوں سے کام کرتے ہیں تو یہ کمپنیاں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ درمیان میں کوئی تیسرا فریق نہ ہو جو ان کی معلومات تک رسائی حاصل کرے۔ اگر انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ پی ٹی اے کے ذریعے ایک تیسری قوت دونوں فریقین کی سرگرمیوں کو مانیٹر کر رہی ہے، تو وہ فوری طور پر معاہدے ختم کر دیں گے۔ سجاد مصطفیٰ سید نے کہا کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کو جو نقصان ہو سکتا ہے، اس کا محتاط اندازہ ایک ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وی پی این کی رجسٹریشن کا یہ طریقہ پاکستان میں قابل عمل نہیں ہے اور اگر یہ نافذ بھی ہو جائے تو یہ قومی سلامتی کے مسائل کو حل نہیں کرتا۔ ان کے مطابق، اگر کوئی شخص دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتا ہے، تو وہ وی پی این رجسٹر بھی کرا سکتا ہے اور اس کی نیت کا کسی کو علم نہیں ہوتا۔ سجاد مصطفیٰ سید نے کہا کہ دہشتگردی کے مسائل عالمی سطح پر ہیں اور اس میں پاکستان بھی متاثر ہے، لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اس طرح کے اقدامات کا طریقہ غلط ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب وی پی این رجسٹرڈ ہوتا ہے، تو ڈیٹا ایک محفوظ طریقے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے، اور اس کے ذریعے وی پی این استعمال کرنے والوں کو پکڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ نظام قومی سلامتی کے لیے اتنا مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا۔

جاری رکھیں

news

نان فائلر اور نیل فائلر سمیت غیر رجسٹرڈ امیر افراد کے خلاف کاروائی کا انفورسمنٹ پلان تیارایف بی آر

Published

on

وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے نان فائلرز اور نیل فائلرز سمیت غیر رجسٹرڈ امیر افراد کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان تیار کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے اس پلان کے نفاذ کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور فیلڈ فارمیشن کی سطح پر اس پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔
اس پلان کا مقصد اُن افراد کے خلاف کارروائی کرنا ہے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے، آمدنی اور اثاثے چھپاتے ہیں، یا صفر آمدنی ظاہر کرتے ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق، ان اقدامات سے ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھانے اور خزانے میں اضافہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ملک کی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔چیئرمین ایف بی آر کی منظوری کے بعد، فیلڈ فارمیشنز نے ہائی نیٹ ویلتھ افراد کو نوٹسز جاری کرنے کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں ایف بی آر پانچ ہزار نان فائلرز کو نوٹسز جاری کرے گا، جن سے 7 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔
ایف بی آر کے ڈیش بورڈ کے ذریعے ان نوٹسز کی ٹریکنگ کی جائے گی۔ ان نوٹسز کو ان افراد تک پہنچانے کے لیے دو لاکھ نان فائلرز کے ٹرانزیکشن ڈیٹا کا ڈیسک آڈٹ اور داخلی تجزیہ کیا جائے گا۔ اس تجزیے کے بعد، آنے والے ہفتے میں ان پانچ ہزار افراد کو نوٹسز ارسال کیے جائیں گے۔
یہ افراد غالباً وہ ہیں جو تین گاڑیوں کے مالک ہیں، بینک اکاؤنٹس میں 100 ملین روپے رکھتے ہیں، کریڈٹ کارڈ کے بلوں میں ماہانہ 200,000 روپے ادا کرتے ہیں، اور اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیجتے ہیں۔ ان افراد کی مجموعی دولت کا تخمینہ 26 سے 27 ارب روپے لگایا گیا ہے، اور ان سے 7 ارب روپے کی آمدنی کی توقع ہے۔
ہر فرد کی اوسط نیٹ ورتھ تقریباً 5.4 ملین روپے ہے، اور وہ ممکنہ طور پر 1.4 ملین روپے انکم ٹیکس ادا کرسکتے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد ٹیکس نیٹ کو بڑھانا اور ملک کی معیشت کو مستحکم کرنا ہے

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~