Connect with us

news

سوچ سمجھ کر کیسز لگائیں گے تو یہ شفافیت نہیں،چیف جسٹس

Published

on

انہوں نے کہا دائیں بائیں بیٹھے ججز کیا فیصلہ کریں گے میرے علم میں نہیں ہوتا قاضی فائز عیسی نے فل کوٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کیا اب کیس لگنے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا؟ چیف جسٹس مقدمہ نہیں لگا سکتے مقدمہ کمیٹی ہی لگاتی ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے ذریعے ہی مقدمے لگائے جاتے ہیں کیس کا فیصلہ مفروضوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ شواہد اور ثبوت کی بنیاد پر ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کے لیے مرسیڈیز بلٹ پروف گاڑی کی ضرورت نہیں اس لیےدونوں گاڑیاں حکومت کو واپس کر دیں گاڑیوں کے پیسے عوام پر لگنے چاہیے چیف جسٹس صاحبان کو مرسیڈیز جیسی گاڑیوں کی ضرورت نہیں ہوتی ڈیپوٹیشن پر جو لوگ ائے تھے انہیں ادارے سے رخصت کر دیا گیا ہے اگر لوگ ڈیپوٹیشن پر زیادہ عرصے بیٹھے رہیں تو یہ بھی غیر قانونی کام ہے ڈیپو ٹیشنسٹ کے زیادہ عرصہ بیٹھے رہنے سے سپریم کورٹ کے اپنے ملازمین کی ترقی رک جاتی تھی
36 وفاقی عدالتیں کراچی شہر میں بکھری ہوئی ہیں جن کی عمارتیں صحیح ہیں نہ ہی ریکارڈ محفوظ ہے پرائیویٹ بلڈنگز میں موجود ان عمارتوں کے پیسے بھی عوام ہی دیتے ہیں ہائی کورٹ کے سامنے ایک بہت بڑی جگہ ہے کراچی کے بالکل مرکز میں جو تقریبا سات ایکڑ پر مشتمل تھی یہ سپریم کورٹ کو دی گئی کہ یہاں سپریم کورٹ کی رجسٹری بنائی جائے میں نے سوچا کہ سپریم کورٹ کی کراچی میں رجسٹری کی کیا ضرورت ہے اگر بینچ وہاں جاتی بھی ہے تو تین چار مرتبہ ہی جاتی ہے اور اب تو ویڈیو لنک کی فیسیلٹی بھی موجود ہے یہ چھ ارب کا پروجیکٹ تھا جس کا ممبر میں اور جسٹس جمال خان مندوخیلی صاحب ہیں ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ سرکار کو اس شرط پر واپس لوٹا دی جائے کہ ان 36 سرکاری عدالتوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا جائے تو اس کا فائدہ عوام اور وکلا دونوں کو ہوگا
سپریم کورٹ کے ملازمین کو تین مزید گروس سیلریز دی گئیں سرکاری تنخواہوں میں سپریم کورٹ کے ملازمین کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہیں میں نے اس کو سال کے اختتام پر ایک بیسک سیلری میں تبدیل کر دیا اس سے بچنے والے پیسوں سے ہم نے 131 کمپیوٹر موٹر سائیکلز بسیں کوسٹرز دو الیکٹرک اور دیگر سامان خریدا
ائین پاکستان میں 19 اے کی شک شامل کی گئی جس کے مطابق معلومات تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہے ہم جتنی زیادہ معلومات عام کریں گے ہم پر جائز تنقید بھی ہوگی جو کہ ایک اچھی بات ہے ہر شخص کا بنیادی حق ہے ہمیں خط لکھیں ہم ساری معلومات فراہم کریں گے مفروضوں یا ذرائع سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہمیں خط لکھا جائے ہم جواب دیں گے جب نگران حکومت تھی الیکشن نہیں ہو رہے تھے ہمارے پاس درخواست آ ئی اور ہم نے 12 دن کے اندر فیصلہ کر دیا اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا الیکشن کمیشن صدر دونوں نے کہا الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار انہیں حاصل ہے ہم نے کہا دونوں دعوے کر رہے ہیں تو کوئی ایک الیکشن کی تاریخ دے دیں


الیکشن کمیشن کو حکم دیا صدر کا عہدہ بڑا ہے اپ جا کر ان سے تاریخ لائیں
تا ہم تاخیر کرنے والے رکاوٹیں ڈھونڈ لیتے ہیں
لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ریٹرننگ افسران عدالتوں سے ہی لیے جائیں الیکشن کمیشن نے درخواست دی تو ہائی کورٹ کے فیصلے کو کلعدم قرار دیا اج تک اپنی ذات سے متعلق توہین کا کیس نہیں لیا احتجاج ہوا تھا جس پر توہین عدالتی کاروائی کی تھی احتجاج کرنے والوں نے معذرت کی تو میں نے کیس واپس لے لیا سپریم کورٹ کے ججز پر تنقید کی گئی تو ہم نے اس کے لیے سپریم جوڈیشل فورم بھی رکھا ماضی میں سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے بدعنوان ججز کو برطرف بھی کیا گیا انہوں نے کہا دوسرے کی شفافیت دیکھیں اور خود شفافیت نہ رکھیں تو بات میں وزن نہیں ہوتا ذوالفقار بھٹو کو غلط سزا مل چکی لیکن یہ اعتراف کیا گیا کہ فیصلہ قانون کے خلاف تھا ایسے ہی ہائی کورٹ کے ایک جج کو غلط طریقے سے نکالا گیا مگر ان کو بھی بحال کیا گیا وہ جج بر طرف کیے گئے تھے لیکن فیصلے میں ریٹائرڈ کیا گیا تھا تاکہ لوازمات مل سکیں کراچی میں نسلہ ٹاور کے متاثرین کو معاوضہ دلوایا کراچی میں سپریم کورٹ کے اعتراف بحریہ کو ہٹوایا کیسز کی تعداد اور تاخیر سے متعلق بھی خامیاں ہیں ججز کو بھی کیسز کی تعداد کم اور تاخیر ختم کرنی ہے ججز پر ائے دن جھوٹے سچے الزام لگائے جاتے ہیں اور وہ کچھ نہیں کہہ سکتے ہم نے سپریم جوڈیشل کونسل کے کوڈ اف کنڈکٹ کے ارٹیکل پانچ میں ترمیم کی
اب اگر کسی جج پر الزام لگے تو وہ اس کا جواب دے سکتا ہے ہم نے وکلا رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں اور انہیں کہا کہ تنقید ضرور کریں مگر غلط خبریں نہ چلوائیں

news

انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے،عمران خان

Published

on

سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر نے ان سے احتجاج ملتوی کرنے کی پیشکش کی تھی، تاکہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ عمران خان نے بتایا کہ ان کا مطالبہ تھا کہ انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے، لیکن حکومت نے اس مطالبے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
عمران خان نے کہا کہ مذاکرات چلتےرہے مگر یہ واضح ہو گیا کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور صرف احتجاج ملتوی کرانا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی، اور حکومت کے پاس موقع تھا کہ وہ انہیں رہا کر دیتی، لیکن یہ ظاہر ہو گیا کہ حکومت معاملہ کو طول دینا چاہتی ہے اور اصل طاقت وہی ہے جو یہ سب کچھ کروا رہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اس سب کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ان پر مزید کیسز بنائے جا رہے ہیں، اور اس صورتحال کو “بنانا ریپبلک” کہا جا رہا ہے۔ عمران خان نے وکلا، ججز، مزدوروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی ہے کہ 24 نومبر کو احتجاج کے لیے باہر نکلیں۔عمران خان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی تھی، مگر اس کے باوجود حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کی رہائی نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا، اور 24 نومبر کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا بڑا احتجاج ہوگا کیونکہ وہ آزاد ممالک میں رہتے ہیں اور اگر حکومت بات چیت میں سنجیدہ ہے تو ان کے گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
عمران خان نے کہا کہ جیل میں رہتے ہوئے ان پر 60 کیسز درج کیے جا چکے ہیں، اور نواز شریف کے حوالے سے بھی سوال اٹھایا کہ انہوں نے کتنے شورٹی بانڈز جمع کروائے تھے اور بائیو میٹرک بھی ائیرپورٹ تک گئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو مذاکرات ہو رہے ہیں، ان میں سنجیدگی نہیں ہے، اور ان مذاکرات کا مقصد صرف وقت گزارنا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں تمام گرفتار افراد کی رہائی شامل ہے، اور جب تک ان لوگوں کو رہا نہیں کیا جاتا، مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام اہم کیسز میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود رہائی نہیں دی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات میں سنجیدگی کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتیں۔

جاری رکھیں

news

عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمہ میں پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور، انسداد دہشت گردی عدالت

Published

on

عمران خان

راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمے میں 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ یہ فیصلہ اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران سنایا گیا، جہاں عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور حکومتی پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل پیش کیے۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر، ظہیر شاہ نے عدالت میں عمران خان کے 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی، اور ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کال پر، جس میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود، مظاہرین نے سرکاری املاک پر حملے کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 28 ستمبر کو ہونے والے احتجاج کی منصوبہ بندی اڈیالہ جیل میں کی گئی تھی اور وہیں سے اس احتجاج کے لیے کال دی گئی تھی۔
عدالت نے حکومتی پراسیکیوٹر کی درخواست پر عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی 5 روزہ مدت منظور کر لی۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ڈیڑھ سال سے اڈیالہ جیل میں قید تنہائی میں ہیں، وہ جیل میں رہ کر کیسے اتنی بڑی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں؟ یہ مقدمہ سیاسی انتقامی کارروائی ہے اور درج متن مفروضوں پر مبنی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے پراسیکیوٹر کی جانب سے 15 دن کے ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عمران خان کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو 26 نومبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ عمران خان سے جیل کے اندر ہی تفتیش کی جائے۔
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی پر 28 ستمبر کو راولپنڈی میں احتجاج پر اکسانے کا کیس ہے جس میں توشہ خانہ ٹو سے ضمانت ملنے کے بعد گزشتہ روز ان کی گرفتاری ڈالی گئی تھی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~