Connect with us

news

سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد 21 تک بڑھانے کا بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا

Published

on

محمد عبدالقادر نے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد، ترمیمی بل پیش کیا جس میں 1997 میں پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کیے گئے سابقہ ​​ایکٹ میں ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا تاکہ عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تعداد 21 کی جا سکے۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے پی ٹی آئی کی مخالفت کے بعد بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا اور الزام لگایا کہ مجوزہ قانون ان ججوں کو لگانے کی نیت سے پیش کیا گیا تھا جو موجودہ حکومت کے حق میں ہوں گے۔

سینیٹر قادر نے وضاحت کی کہ بل کا مقصد فوری انصاف کو یقینی بنانا ہے اور عدالت عظمیٰ میں 53,000 سے زائد مقدمات کی واضح التوا کو یقینی بنانا ہے، کیونکہ مدعیان کو اپنے مقدمات نمٹانے کے لیے دو سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

تاہم، انہوں نے نشاندہی کی کہ ججز عام لوگوں کے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کرتے رہے کیونکہ وہ ان کے پاس زیر التواء متعدد آئینی معاملات پر فیصلہ کرنے میں مصروف تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اربوں روپے کے ٹیکس اور پاور یوٹیلیٹیز سے متعلق کیسز بھی سپریم کورٹ کے پاس پھنسے ہوئے ہیں جب کہ ججز کے پاس انہیں سننے کا وقت نہیں ہے۔ انہوں نے بڑھتی ہوئی آبادی کو سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کی ایک اور وجہ قرار دیا۔

بل کی مخالفت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ حکومت کو سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے نچلی عدلیہ میں اصلاحات لانی چاہیے تھیں۔

وزیر قانون تارڑ نے بلواسطہ طور پر بل کی حمایت کی اور اپوزیشن کو اس معاملے کو سیاسی بنانے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ موور نے حقیقی مسائل کی نشاندہی کی ہے چاہے حکومت اس سے متفق نہ ہو۔

انہوں نے وضاحت کی کہ سزائے موت اور عمر قید کا سامنا کرنے والے قیدیوں کی اپیلیں 2015 سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پی ٹی آئی کی سینیٹر فوزیہ ارشد نے بھی ایسا ہی ایک بل پیش کیا تھا جسے بعد میں ان کی پارٹی کے ساتھی اور سینئر وکیل سینیٹر کے مشورے پر واپس لے لیا گیا تھا۔ حامد خان۔

وزیر قانون نے اس بات پر زور دیا کہ آئین بنانے والوں نے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعداد کا تعین نہیں کیا اور موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وقتاً فوقتاً ایسا کرنے کے لیے اسے پارلیمنٹ کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اعلیٰ عدالت کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد میں 10 کا اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بل کا جائزہ لے گی اور پھر اس کا جواب دے گی۔ انہوں نے چیئرمین سے یہ بھی درخواست کی کہ بل کو متعلقہ ہاؤس کمیٹی کو بھیج دیا جائے۔

news

انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے،عمران خان

Published

on

سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر نے ان سے احتجاج ملتوی کرنے کی پیشکش کی تھی، تاکہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ عمران خان نے بتایا کہ ان کا مطالبہ تھا کہ انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے، لیکن حکومت نے اس مطالبے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
عمران خان نے کہا کہ مذاکرات چلتےرہے مگر یہ واضح ہو گیا کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور صرف احتجاج ملتوی کرانا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی، اور حکومت کے پاس موقع تھا کہ وہ انہیں رہا کر دیتی، لیکن یہ ظاہر ہو گیا کہ حکومت معاملہ کو طول دینا چاہتی ہے اور اصل طاقت وہی ہے جو یہ سب کچھ کروا رہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اس سب کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ان پر مزید کیسز بنائے جا رہے ہیں، اور اس صورتحال کو “بنانا ریپبلک” کہا جا رہا ہے۔ عمران خان نے وکلا، ججز، مزدوروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی ہے کہ 24 نومبر کو احتجاج کے لیے باہر نکلیں۔عمران خان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی تھی، مگر اس کے باوجود حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کی رہائی نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا، اور 24 نومبر کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا بڑا احتجاج ہوگا کیونکہ وہ آزاد ممالک میں رہتے ہیں اور اگر حکومت بات چیت میں سنجیدہ ہے تو ان کے گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
عمران خان نے کہا کہ جیل میں رہتے ہوئے ان پر 60 کیسز درج کیے جا چکے ہیں، اور نواز شریف کے حوالے سے بھی سوال اٹھایا کہ انہوں نے کتنے شورٹی بانڈز جمع کروائے تھے اور بائیو میٹرک بھی ائیرپورٹ تک گئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو مذاکرات ہو رہے ہیں، ان میں سنجیدگی نہیں ہے، اور ان مذاکرات کا مقصد صرف وقت گزارنا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں تمام گرفتار افراد کی رہائی شامل ہے، اور جب تک ان لوگوں کو رہا نہیں کیا جاتا، مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام اہم کیسز میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود رہائی نہیں دی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات میں سنجیدگی کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتیں۔

جاری رکھیں

news

عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمہ میں پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور، انسداد دہشت گردی عدالت

Published

on

عمران خان

راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمے میں 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ یہ فیصلہ اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران سنایا گیا، جہاں عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور حکومتی پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل پیش کیے۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر، ظہیر شاہ نے عدالت میں عمران خان کے 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی، اور ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کال پر، جس میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود، مظاہرین نے سرکاری املاک پر حملے کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 28 ستمبر کو ہونے والے احتجاج کی منصوبہ بندی اڈیالہ جیل میں کی گئی تھی اور وہیں سے اس احتجاج کے لیے کال دی گئی تھی۔
عدالت نے حکومتی پراسیکیوٹر کی درخواست پر عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی 5 روزہ مدت منظور کر لی۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ڈیڑھ سال سے اڈیالہ جیل میں قید تنہائی میں ہیں، وہ جیل میں رہ کر کیسے اتنی بڑی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں؟ یہ مقدمہ سیاسی انتقامی کارروائی ہے اور درج متن مفروضوں پر مبنی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے پراسیکیوٹر کی جانب سے 15 دن کے ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عمران خان کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو 26 نومبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ عمران خان سے جیل کے اندر ہی تفتیش کی جائے۔
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی پر 28 ستمبر کو راولپنڈی میں احتجاج پر اکسانے کا کیس ہے جس میں توشہ خانہ ٹو سے ضمانت ملنے کے بعد گزشتہ روز ان کی گرفتاری ڈالی گئی تھی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~