Connect with us

news

سرکاری ملازمین کی جانب سے سوشل میڈیا کے ’غیر مجاز‘ استعمال پر پابندی عائد کردی گئی

Published

on

سرکاری ملازمین کی جانب سے سوشل میڈیا کے ’غیر مجاز‘ استعمال پر پابندی عائد کردی گئی۔ وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی جانب سے سوشل میڈیا کے ’غیرمجاز‘ استعمال کا نوٹس لیتے ہوئے بغیر اجازت سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔

وفاقی حکومت کی تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو میمورنڈم جاری کر دیا گیا ہے جس میں ہدایات کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی وارننگ دی گئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اس حوالے سے تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو باضابطہ دفتری میمورنڈم ارسال کر دیا ہے۔ میمورنڈم کے مطابق وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کے سرکاری ملازمین بغیر اجازت سوشل میڈیا کا کوئی پلیٹ فارم استعمال نہیں کر سکیں گے۔ یہ فیصلہ سرکاری معلومات اور دستاویزات کے افشاء کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ دفتری میمورنڈم میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے سرکاری ملازمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گورنمنٹ سرونٹ کنڈکٹ رولز 1964 کی پابندی کریں اور فیس بک، ٹوئٹر سمیت کسی بھی سوشل میڈیا ایپلی کیشن کو بغیر اجازت استعمال نہ کریں۔

میمورنڈم کے مطابق کوئی سرکاری ملازم بغیر اجازت سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار یا بیان بازی نہیں کر سکتا۔ سرکاری ملازمین سرکاری دستاویزات یا معلومات غیر متعلقہ لوگوں یا پریس کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتے۔ سرکاری ملازمین ایسی رائے یا حقائق بیان نہیں کر سکتے جس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہو، یا توہین عدالت کے قانون کا مطالبہ ہو۔ ملازمین کو حکومتی پالیسی، فیصلوں، قومی خودمختاری، وقار یا دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات کے خلاف بولنے کی اجازت نہیں ہے۔

دفتری میمورنڈم کے مطابق سرکاری ملازمین کو اکثر سوشل میڈیا بشمول فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور مائیکرو بلاگنگ وغیرہ پر بحث و مباحثہ کرتے دیکھا گیا ہے، بعض ملازمین نے پروگرام ڈیسک بنا رکھے ہیں۔ ملازمین کو کسی بھی بات چیت میں اپنی رائے دینے کی اجازت نہیں ہے۔

میمورنڈم میں کہا گیا کہ رہنما خطوط کا مقصد سوشل میڈیا کے مثبت استعمال پر پابندی نہیں ہے۔ وفاقی سیکرٹریز، ایڈیشنل سیکرٹریز، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس اور چیف سیکرٹریز کو قابل اعتراض مواد ہٹانے کی مانیٹرنگ جاری رکھنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے،عمران خان

Published

on

سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر نے ان سے احتجاج ملتوی کرنے کی پیشکش کی تھی، تاکہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ عمران خان نے بتایا کہ ان کا مطالبہ تھا کہ انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے، لیکن حکومت نے اس مطالبے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
عمران خان نے کہا کہ مذاکرات چلتےرہے مگر یہ واضح ہو گیا کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور صرف احتجاج ملتوی کرانا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی، اور حکومت کے پاس موقع تھا کہ وہ انہیں رہا کر دیتی، لیکن یہ ظاہر ہو گیا کہ حکومت معاملہ کو طول دینا چاہتی ہے اور اصل طاقت وہی ہے جو یہ سب کچھ کروا رہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اس سب کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ان پر مزید کیسز بنائے جا رہے ہیں، اور اس صورتحال کو “بنانا ریپبلک” کہا جا رہا ہے۔ عمران خان نے وکلا، ججز، مزدوروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی ہے کہ 24 نومبر کو احتجاج کے لیے باہر نکلیں۔عمران خان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی تھی، مگر اس کے باوجود حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کی رہائی نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا، اور 24 نومبر کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا بڑا احتجاج ہوگا کیونکہ وہ آزاد ممالک میں رہتے ہیں اور اگر حکومت بات چیت میں سنجیدہ ہے تو ان کے گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
عمران خان نے کہا کہ جیل میں رہتے ہوئے ان پر 60 کیسز درج کیے جا چکے ہیں، اور نواز شریف کے حوالے سے بھی سوال اٹھایا کہ انہوں نے کتنے شورٹی بانڈز جمع کروائے تھے اور بائیو میٹرک بھی ائیرپورٹ تک گئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو مذاکرات ہو رہے ہیں، ان میں سنجیدگی نہیں ہے، اور ان مذاکرات کا مقصد صرف وقت گزارنا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں تمام گرفتار افراد کی رہائی شامل ہے، اور جب تک ان لوگوں کو رہا نہیں کیا جاتا، مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام اہم کیسز میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود رہائی نہیں دی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات میں سنجیدگی کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتیں۔

جاری رکھیں

news

عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمہ میں پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور، انسداد دہشت گردی عدالت

Published

on

عمران خان

راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمے میں 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ یہ فیصلہ اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران سنایا گیا، جہاں عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور حکومتی پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل پیش کیے۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر، ظہیر شاہ نے عدالت میں عمران خان کے 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی، اور ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کال پر، جس میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود، مظاہرین نے سرکاری املاک پر حملے کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 28 ستمبر کو ہونے والے احتجاج کی منصوبہ بندی اڈیالہ جیل میں کی گئی تھی اور وہیں سے اس احتجاج کے لیے کال دی گئی تھی۔
عدالت نے حکومتی پراسیکیوٹر کی درخواست پر عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی 5 روزہ مدت منظور کر لی۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ڈیڑھ سال سے اڈیالہ جیل میں قید تنہائی میں ہیں، وہ جیل میں رہ کر کیسے اتنی بڑی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں؟ یہ مقدمہ سیاسی انتقامی کارروائی ہے اور درج متن مفروضوں پر مبنی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے پراسیکیوٹر کی جانب سے 15 دن کے ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عمران خان کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو 26 نومبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ عمران خان سے جیل کے اندر ہی تفتیش کی جائے۔
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی پر 28 ستمبر کو راولپنڈی میں احتجاج پر اکسانے کا کیس ہے جس میں توشہ خانہ ٹو سے ضمانت ملنے کے بعد گزشتہ روز ان کی گرفتاری ڈالی گئی تھی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~