Connect with us

news

عالمی خلائی ہفتہ 2025: خلا میں زندگی اور ترقی کی نئی راہیں

Published

on

عالمی خلائی

اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام عالمی خلائی ہفتے کا آغاز ہو چکا ہے جس کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو یہ سمجھنے کی ترغیب دینا ہے کہ خلا میں زندگی کیسی ہو سکتی ہے اور اسے زمین پر ترقی کے لیے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رواں سال کا مرکزی موضوع “خلا میں زندگی” ہے، جو اس پہلو کو اجاگر کرتا ہے کہ سائنسی ایجادات، عالمی قوانین اور بین الاقوامی تعاون کس طرح خلا میں انسانی مستقبل کو تشکیل دے رہے ہیں۔

یہ ہفتہ ہر سال 4 سے 10 اکتوبر تک منایا جاتا ہے، جو دو تاریخی واقعات کی یادگار ہے: 1957 میں سپٹنک 1 کا خلا میں بھیجا جانا اور 1967 میں بیرونی خلا کے معاہدے کی منظوری — جس نے بین الاقوامی خلائی قانون کی بنیاد رکھی۔ آج 90 سے زائد ممالک کے مصنوعی سیارے مدار میں موجود ہیں، اور 2030 تک عالمی خلائی معیشت کا حجم 730 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔

اقوام متحدہ کے خلائی امور کے دفتر (UNOOSA) کی ڈائریکٹر آرتی ہولا مائنی کہتی ہیں کہ خلا اب کوئی تصوراتی خیال نہیں رہا، بلکہ یہ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے — اور اگر تمام ممالک مل کر کام کریں تو زمین پر موجود بڑے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

خلائی تحقیق سے جنم لینے والی ٹیکنالوجیز — جیسے شمسی پینل، پانی صاف کرنے کے نظام، GPS، موسم کی نگرانی اور ٹیلی کمیونیکیشن — آج ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہیں۔

تاہم، خلا میں انسانی سرگرمیوں میں اضافے سے خلائی ملبے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ اس وقت زمین کے مدار میں 45,000 سے زیادہ انسانی ساختہ اشیاء موجود ہیں، اور ہزاروں نئے سیارے بھیجے جانے کا منصوبہ ہے۔

UNOOSA اس وقت چاند کے مشنز کو منظم کرنے کے لیے “سب کا چاند” نامی اقدام پر کام کر رہا ہے تاکہ چاند کی تلاش پرامن، محفوظ اور سب کے لیے قابلِ رسائی رہے۔ 2030 تک چاند سے متعلق 100 سے زائد سائنسی و تجارتی مشنز کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے۔

خلا اب صرف ترقی یافتہ ممالک کا شعبہ نہیں رہا، بلکہ ترقی پذیر اقوام جیسے کینیا، نیپال اور گوئٹے مالا کے لیے بھی ترقی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اقوام متحدہ مصنوعی سیاروں، قدرتی آفات، خوراک کے تحفظ اور ماحولیاتی نگرانی کے لیے خلائی معلومات کا استعمال بڑھا رہا ہے۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (ISS) جیسا منصوبہ انسان کی مشترکہ کاوش کا بہترین نمونہ ہے، جہاں دنیا بھر کے خلاباز مل کر زمین سے باہر زندگی کے امکانات تلاش کرتے ہیں۔ NASA کے سابق خلاباز Scott Kelly کے مطابق، اگر خلا میں اتنا بڑا منصوبہ ممکن ہوا، تو زمین پر بھی عالمی تعاون کے ذریعے بہت کچھ ممکن ہے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ

Published

on

By

کینیڈا

کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔

پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز

Published

on

By

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔

عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟

جاری رکھیں

Trending

Copyright © 2024 Sahafat Group of Publications . Powered by NTD.

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~