Connect with us

news

ڈونلڈ ٹرمپ اور شہباز شریف کی وائٹ ہاؤس میں اہم ملاقات

Published

on

ڈونلڈ ٹرمپ

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعرات کے روز وائٹ ہاؤس میں پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان چند ہفتے قبل ایک اہم تجارتی معاہدہ طے پایا ہے، جسے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اعلیٰ سطحی ملاقات میں کئی اہم امور زیرِ بحث آئیں گے، جن میں خطے میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات، نایاب معدنیات پر اشتراک، تجارت اور محصولات سے متعلق مسائل شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، دونوں رہنما علاقائی استحکام، انسدادِ دہشت گردی کے وسیع تر تعاون اور دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے پر بھی گفتگو کریں گے۔

امریکہ اور پاکستان کے تعلقات حالیہ مہینوں میں ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئے ہیں۔ ماضی میں واشنگٹن نے بھارت کو چین کے اثر و رسوخ کے مقابلے میں ایک توازن قائم رکھنے والا شراکت دار سمجھا تھا، لیکن ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے دوران، امریکہ-بھارت تعلقات میں ویزہ پالیسی، تجارتی محصولات اور کشمیر تنازعے پر ٹرمپ کے بیانات کے باعث کشیدگی دیکھی گئی ہے۔ اس صورتحال نے بھارت کو چین سے اپنے تعلقات دوبارہ ترتیب دینے پر مجبور کر دیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان میں بڑھتی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے رواں برس کے آغاز میں پاکستانی آرمی چیف، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بھی وائٹ ہاؤس میں میزبانی کی، جو ایک نایاب سفارتی موقع تھا۔ اس ملاقات میں کوئی اعلیٰ سول عہدیدار موجود نہیں تھا، جو ٹرمپ کے پاکستانی فوج سے تعلقات کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔

اسی دوران پاکستان نے بھارت و پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی ٹرمپ کی کوششوں پر انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی کھل کر حمایت کی ہے۔

ایک سینئر امریکی سفارتی عہدیدار کے مطابق، امریکہ انسدادِ دہشتگردی، اقتصادی و تجارتی تعاون جیسے اہم معاملات پر پاکستان کے ساتھ مسلسل کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ، “صدر کا فوکس خطے میں امریکی مفادات کو آگے بڑھانے پر ہے، اور پاکستان کے ساتھ تعلقات اس پالیسی کا اہم حصہ ہیں۔”

یاد رہے کہ شہباز شریف نے اس ہفتے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر مسلم ممالک کے سربراہان کے اجلاس میں بھی شرکت کی، جس کی میزبانی قطر اور امریکہ نے مشترکہ طور پر کی تھی۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ

Published

on

By

کینیڈا

کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔

پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز

Published

on

By

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔

عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟

جاری رکھیں

Trending

Copyright © 2024 Sahafat Group of Publications . Powered by NTD.

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~