Connect with us

news

ہو سکتا ہے وہ کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ جانتی ہو، اسی لیے اسے نشانہ بنایا گیا۔

Published

on

آر جی کار میڈیکل کالج اور اسپتال میں کولکتہ کے ایک 31 سالہ پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ڈاکٹر کے قتل اور عصمت دری کے معاملے نے ساتھیوں اور والدین کو ایک بڑی سازش کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے ایک نیا موڑ لیا ہے۔

متاثرہ لڑکی کو ہسپتال کے سیمینار ہال میں زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا لیکن اس کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی معمولی جرم نہیں تھا۔

اس کی ڈائریوں کے مطابق، متاثرہ خاتون کام کے بہت زیادہ دباؤ میں تھی، جس میں 36 گھنٹے کی مسلسل شفٹ بھی شامل تھی۔ ساتھیوں نے سوال اٹھایا ہے کہ ملزم سنجے رائے کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ سیمینار ہال میں اکیلی ہے۔ “رائے ایک بڑی مچھلی کے ذریعہ تیار کردہ سازش کا حصہ ہوسکتا ہے۔ اسے نشانہ بنایا گیا،‘‘ ایک ساتھی نے کہا۔

ایک اور ساتھی نے الزام لگایا کہ متاثرہ اپنے محکمے میں منشیات کے ممکنہ ریکیٹ کو بے نقاب کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ “وہ شاید کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ جانتی تھی،” اس نے کہا۔

متاثرہ کے والدین نے بھی تفتیش پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ اس کی والدہ نے انکشاف کیا کہ ان کی بیٹی نے حملے سے قبل ہسپتال جانے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تھا۔ “وہ کہتی تھی کہ اب اسے آر جی کار جانا پسند نہیں ہے،” اس نے کہا۔

ڈاکٹر کے والد نے پولیس کی تفتیش پر سوال اٹھایا ہے اور شبہ ظاہر کیا ہے کہ ان کی بیٹی کو کہیں اور قتل کیا گیا ہے۔ “ہمیں پولیس کی کوتاہیوں کا پتہ چلا اور سی بی آئی کو مطلع کیا۔ اب ہمیں شک ہے کہ آیا اسے سیمینار ہال میں قتل کیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اسے کہیں اور مارا گیا ہو۔”

سی بی آئی نے تفتیش اپنے ہاتھ میں لے لی ہے، اور والد نے ان کی تحقیقات پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے ذمہ داروں کو سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

کولکتہ کے مشرقی شہر کے ایک میڈیکل کالج کے اندر گزشتہ ہفتے ایک 31 سالہ ٹرینی ڈاکٹر کو ریپ اور قتل کر دیا گیا تھا جہاں وہ کام کرتی تھی، جس سے ڈاکٹروں کے درمیان ملک گیر احتجاج شروع ہوا اور 23 سالہ طالبہ کے اجتماعی عصمت دری اور قتل کے متوازی واقعات سامنے آئے۔ 2012 میں نئی ​​دہلی میں چلتی بس میں۔

news

انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے،عمران خان

Published

on

سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر نے ان سے احتجاج ملتوی کرنے کی پیشکش کی تھی، تاکہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ عمران خان نے بتایا کہ ان کا مطالبہ تھا کہ انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے، لیکن حکومت نے اس مطالبے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
عمران خان نے کہا کہ مذاکرات چلتےرہے مگر یہ واضح ہو گیا کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور صرف احتجاج ملتوی کرانا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی، اور حکومت کے پاس موقع تھا کہ وہ انہیں رہا کر دیتی، لیکن یہ ظاہر ہو گیا کہ حکومت معاملہ کو طول دینا چاہتی ہے اور اصل طاقت وہی ہے جو یہ سب کچھ کروا رہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اس سب کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ان پر مزید کیسز بنائے جا رہے ہیں، اور اس صورتحال کو “بنانا ریپبلک” کہا جا رہا ہے۔ عمران خان نے وکلا، ججز، مزدوروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی ہے کہ 24 نومبر کو احتجاج کے لیے باہر نکلیں۔عمران خان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی تھی، مگر اس کے باوجود حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کی رہائی نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا، اور 24 نومبر کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا بڑا احتجاج ہوگا کیونکہ وہ آزاد ممالک میں رہتے ہیں اور اگر حکومت بات چیت میں سنجیدہ ہے تو ان کے گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
عمران خان نے کہا کہ جیل میں رہتے ہوئے ان پر 60 کیسز درج کیے جا چکے ہیں، اور نواز شریف کے حوالے سے بھی سوال اٹھایا کہ انہوں نے کتنے شورٹی بانڈز جمع کروائے تھے اور بائیو میٹرک بھی ائیرپورٹ تک گئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو مذاکرات ہو رہے ہیں، ان میں سنجیدگی نہیں ہے، اور ان مذاکرات کا مقصد صرف وقت گزارنا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں تمام گرفتار افراد کی رہائی شامل ہے، اور جب تک ان لوگوں کو رہا نہیں کیا جاتا، مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام اہم کیسز میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود رہائی نہیں دی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات میں سنجیدگی کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتیں۔

جاری رکھیں

news

عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمہ میں پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور، انسداد دہشت گردی عدالت

Published

on

عمران خان

راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمے میں 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ یہ فیصلہ اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران سنایا گیا، جہاں عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور حکومتی پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل پیش کیے۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر، ظہیر شاہ نے عدالت میں عمران خان کے 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی، اور ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کال پر، جس میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود، مظاہرین نے سرکاری املاک پر حملے کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 28 ستمبر کو ہونے والے احتجاج کی منصوبہ بندی اڈیالہ جیل میں کی گئی تھی اور وہیں سے اس احتجاج کے لیے کال دی گئی تھی۔
عدالت نے حکومتی پراسیکیوٹر کی درخواست پر عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی 5 روزہ مدت منظور کر لی۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ڈیڑھ سال سے اڈیالہ جیل میں قید تنہائی میں ہیں، وہ جیل میں رہ کر کیسے اتنی بڑی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں؟ یہ مقدمہ سیاسی انتقامی کارروائی ہے اور درج متن مفروضوں پر مبنی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے پراسیکیوٹر کی جانب سے 15 دن کے ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عمران خان کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو 26 نومبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ عمران خان سے جیل کے اندر ہی تفتیش کی جائے۔
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی پر 28 ستمبر کو راولپنڈی میں احتجاج پر اکسانے کا کیس ہے جس میں توشہ خانہ ٹو سے ضمانت ملنے کے بعد گزشتہ روز ان کی گرفتاری ڈالی گئی تھی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~