Connect with us

news

اسلامی ممالک کا امریکہ سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ

Published

on

اسلامی ممالک

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر نیویارک میں قطر اور امریکہ کی میزبانی میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں منتخب اسلامی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس اجلاس کا مقصد غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے خاتمے سے متعلق امریکی مجوزہ منصوبے سے آگاہی دینا اور مسئلے کے حل میں پیش رفت حاصل کرنا تھا۔ اجلاس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، مصر، ترکی، اردن، انڈونیشیا اور پاکستان کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

اجلاس سے قبل ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی گفتگو میں قطر کے امیر نے کہا کہ اجلاس کا بنیادی مقصد غزہ میں جنگ کا خاتمہ اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکہ اس مقصد کے لیے اسلامی ممالک کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی مغویوں کی رہائی صرف اسلامی ممالک کے تعاون سے ہی ممکن ہے، اور یہی وجہ ہے کہ یہ ملاقات ان کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنرل اسمبلی کے موقع پر ان کی 32 ملاقاتیں شیڈول میں شامل ہیں، لیکن یہ اجلاس ان سب میں سب سے اہم ہے کیونکہ اس میں ایک ایسی جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کبھی شروع ہی نہیں ہونی چاہیے تھی۔

صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ سے اپنے خطاب میں بھی غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ حالیہ دنوں میں کئی اہم ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ امن کے خواہاں افراد کو اس بات پر متحد ہونا چاہیے کہ یرغمالیوں کو فوری رہا کیا جائے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ان سات بین الاقوامی تنازعات کا بھی ذکر کیا جنہیں وہ اپنے دوسرے دورِ صدارت میں حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، جن میں پاکستان اور بھارت، اسرائیل اور ایران، مصر اور ایتھوپیا، آرمینیا اور آذربائیجان، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ، کوسوو اور سربیا، اور جمہوریہ کانگو اور روانڈا شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے ان تنازعات کے حل میں کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کیا، جبکہ ان کی حکومت نے ان میں سے کئی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ

Published

on

By

کینیڈا

کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔

پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز

Published

on

By

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔

عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟

جاری رکھیں

Trending

Copyright © 2024 Sahafat Group of Publications . Powered by NTD.

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~