Connect with us

news

سپریم کورٹ کے فیصلے پر تحریک انصاف کا شدید ردعمل

Published

on

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے نظرثانی فیصلے پر پاکستان تحریک انصاف نے سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے آئین، انصاف اور جمہوریت کے خلاف ایک سنگین اقدام قرار دیا ہے۔ پارٹی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ آج ایک بار پھر سپریم کورٹ کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کے آئینی حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، اور اس عمل نے نہ صرف انصاف کی روح کو کچلا بلکہ عوام کے ووٹ اور نمائندگی کو بھی روند ڈالا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ماضی میں اسی عدالت نے پی ٹی آئی کے حق میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلہ دیا تھا، مگر آج عدالت نے اپنے ہی اصول کی نفی کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ دیا ہے جو پاکستان کی عدالتی تاریخ کے سیاہ دنوں میں شمار ہوگا۔

پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ یہ فیصلہ محض عدالتی کارروائی نہیں بلکہ ایک طے شدہ ریاستی منصوبے کا تسلسل ہے جس کے تحت تحریک انصاف کو کچلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ پہلے الیکشن چوری کیے گئے، بلے کا نشان چھینا گیا، کارکنان کو اغوا کیا گیا، میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ نافذ کیا گیا اور اب مخصوص نشستوں کو بھی سیاسی مخالفین میں اس طرح بانٹا گیا جیسے وہ مالِ غنیمت ہو۔ یہ سب کچھ محض اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ عمران خان عوامی حمایت رکھتے ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان اب ایک جمہوری ریاست نہیں بلکہ ایک استبدادی نظام میں بدل چکا ہے جہاں سچ بولنا جرم، حق مانگنا بغاوت اور عمران خان کو ووٹ دینا ناقابلِ معافی گناہ بن چکا ہے۔

پی ٹی آئی نے کہا کہ ان پر جبر کی انتہا کی گئی ہے، کارکنان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور عوام کے تمام بنیادی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں۔ ان کے مطابق ہر دروازہ بند کر دیا گیا ہے سوائے جیل اور قبرستان کے، مگر ان کی امید عمران خان کی قیادت اور عوام کی حمایت سے جڑی ہوئی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ہم زخمی ضرور ہیں لیکن عمران خان کے نظریئے کی مرہم ہمارے پاس موجود ہے۔ عدالتوں سے ہم ناامید ہو چکے ہیں، لیکن عوام سے نہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ آخری فتح انشاء اللہ حق، آئین اور عمران خان کی ہو گی۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ

Published

on

By

کینیڈا

کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔

پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز

Published

on

By

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔

عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟

جاری رکھیں

Trending

Copyright © 2024 Sahafat Group of Publications . Powered by NTD.

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~