Connect with us

news

ایران پر حملہ: امریکہ کا انکشاف، مذمت کرنے والے ممالک پس پردہ ہمارے ساتھ تھے

Published

on

ایران پر حملہ

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے انکشاف کیا ہے کہ ایران پر حملہ ہوا اور اس کی مذمت کرنے والے کئی ممالک درحقیقت پس پردہ اس کارروائی کے حق میں تھے۔ امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک نے بظاہر ہماری مخالفت کی، لیکن نجی طور پر وہ سب ہمارے مؤقف سے متفق تھے کہ ایران پر یہ کارروائی ناگزیر تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر اگر کسی کو واقعی اس کارروائی پر اعتراض ہے تو وہ صرف ایرانی حکومت ہے، باقی ممالک نے عوامی تعلقات کی خاطر بیانات دیے ہیں۔

مارکو روبیو کے ان انکشافات کے ساتھ ہی امریکی سینٹرل کمانڈ نے “مڈنائٹ ہیمر” نامی اس خفیہ مشن کی تفصیلات بھی جاری کی ہیں جس کے تحت ایران کی تین اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس آپریشن میں 7 بی-2 بمبار طیارے شامل تھے جن میں ہر طیارے پر دو افراد سوار تھے، جبکہ پورے مشن کے دوران آپس میں محدود کمیونیکیشن رکھی گئی۔ یہ طیارے امریکہ سے مغرب کی جانب روانہ ہوئے لیکن دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے ان کا ابتدائی راستہ بحرالکاہل کی جانب رکھا گیا۔ طویل 18 گھنٹے کی پرواز میں مڈ ایئر فیولنگ بھی کی گئی، اور ہر بی-2 بمبار کے ساتھ ایک معاون جہاز بھی شامل تھا۔

کارروائی سے قبل امریکی سب میرین نے ساڑھے بارہ بجے رات 12 سے زائد ٹوماہاک میزائل داغے جو ایران کے اہم زمینی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوئے۔ پینٹاگون کے مطابق، اس مشن کو مختلف امریکی کمانڈز جیسے اسٹریٹیجک کمانڈ، سائبر کمانڈ، اسپیس کمانڈ اور یورپین کمانڈ کی مدد حاصل تھی۔ جب امریکی بی-2 طیارے نطنز کے قریب پہنچے تو یو ایس پروٹیکشن پیکج ایکشن میں آیا جس کا مقصد طیاروں کو نطنز تک محفوظ طریقے سے پہنچانا تھا۔ اس پیکج میں تیز رفتار وار کرنے والے جدید ہتھیار شامل تھے۔

آپریشن کے دوران کسی بھی امریکی طیارے پر جوابی حملہ رپورٹ نہیں ہوا۔ دو بی-2 بمبار طیاروں نے صبح 2 بج کر 10 منٹ پر فردو نیوکلیئر پلانٹ پر جی بی یو-57 بم گرائے، جبکہ دیگر طیاروں نے بھی اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ یہ پورا مشن ایران کی ایٹمی صلاحیتوں کو محدود کرنے اور امریکی اسٹریٹیجک مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ

Published

on

By

کینیڈا

کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔

پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز

Published

on

By

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔

عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟

جاری رکھیں

Trending

Copyright © 2024 Sahafat Group of Publications . Powered by NTD.

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~