news
پاکستان کی اقوام متحدہ میں بڑی سفارتی کامیابی، بھارتی الزامات ناکام
پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ایک بڑی سفارتی کامیابی حاصل ہوئی ہے جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھارت کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو نہ صرف سختی سے مسترد کیا گیا بلکہ پاکستان کے مؤقف کو بھرپور پذیرائی بھی ملی۔ اجلاس میں تمام پانچ ویٹو پاور ممالک نے پاکستان کی حمایت کی، جس سے بھارت کو شدید سفارتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ اجلاس تقریباً پانچ سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ سیکیورٹی صورتحال اور جموں و کشمیر کے دیرینہ تنازع پر بلایا گیا تھا۔ اجلاس میں سلامتی کونسل کے تمام 15 ارکان بشمول امریکہ، روس، چین، فرانس اور برطانیہ کے مستقل نمائندے بھی شریک ہوئے۔
پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے اجلاس میں بھرپور انداز میں پاکستان کا مؤقف پیش کیا اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی سمیت موجودہ کشیدہ صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے بھارتی الزامات کو جھوٹا، من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کا کسی بھی دہشتگردانہ واقعے سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ وہ بین الاقوامی، شفاف اور آزاد تحقیقات کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
پہلگام واقعے پر بات کرتے ہوئے پاکستانی مندوب نے اسے “فالس فلیگ آپریشن” قرار دیا، جو بھارت کی جانب سے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی ایک سازش کا حصہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارت نے اس واقعے سے متعلق تاحال کوئی ٹھوس ثبوت پاکستان کو فراہم نہیں کیا۔
پاکستانی مشن نے اقوام متحدہ میں اس اجلاس کے لیے جامع تیاری کی تھی اور عالمی برادری کو کشمیر کے مسئلے اور کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ پاکستان کی درخواست پر جب اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کا نام دہشتگردی سے نہ جوڑا جائے، تو کسی بھی ویٹو پاور ملک نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔
دوسری جانب بھارتی تجزیہ کاروں نے اپنی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی حکومت کی نہ جنگ کی پالیسی ہے نہ امن کی، اور بھارت دنیا بھر میں سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنگ ہوئی تو اس کا سب سے زیادہ نقصان بھارتی عوام کو ہوگا، اور ہمیں اپنی لاشیں خود اٹھانا پڑیں گی۔ تجزیہ کاروں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ آج عالمی برادری پاکستان کے مؤقف کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔
news
کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ
کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔
پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔
شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔
news
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز
سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔
عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟
-
news1 month ago
14 سالہ سدھارتھ ننڈیالا کی حیران کن کامیابی: دل کی بیماری کا پتہ چلانے والی AI ایپ تیار
-
کھیل5 months ago
ایشیا کپ 2025: بھارت کی دستبرداری کی خبروں پر بی سی سی آئی کا ردعمل
-
news6 months ago
رانا ثناءاللہ کا بلاول کے بیان پر ردعمل: سندھ کے پانی کا ایک قطرہ بھی استعمال نہیں کریں گے
-
news6 months ago
اداکارہ علیزہ شاہ نے سوشل میڈیا سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا