Connect with us

news

سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس، درخواستوں کے دائرہ کار پر اہم فیصلہ

Published

on

جسٹس منصور علی شاہ

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس میں درخواستوں کے دائرہ کار سے متعلق اہم فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے تحریر کیا ہے، جسے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت سے قبل جاری کیا گیا۔

فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ نظرثانی کی درخواست صرف آئین کے آرٹیکل 188 اور سپریم کورٹ کے اپنے قواعد و ضوابط کے تحت ہی دائر کی جا سکتی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایسے نکات جو اصل مقدمے میں زیر غور آ کر مسترد کیے جا چکے ہوں، انہیں نظرثانی کے مرحلے پر دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ مزید کہا گیا کہ محض اس بنیاد پر کہ فیصلے میں کوئی دوسرا نقطہ نظر بھی شامل کیا جا سکتا تھا، نظرثانی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی عدالتی فیصلے پر کسی فریق کی محض ناراضگی یا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ نظرثانی کی درخواست میں کسی واضح قانونی یا فنی غلطی کی نشاندہی ضروری ہے۔

عدالت نے فیصلے میں اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان بھر میں تقریباً 22 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں سے 56 ہزار سے زائد کیسز صرف سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد غیر ضروری اور من گھڑت نظرثانی کی درخواستوں پر مشتمل ہے جن کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

یاد رہے کہ مخصوص نشستوں پر 12 جولائی 2023 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا، جس میں پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں دائر کی گئیں، جن کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے 13 رکنی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا ہے۔ یہ بینچ 6 مئی کو ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا۔

بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین کریں گے جبکہ دیگر اراکین میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس باقر نجفی شامل ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ، جنہوں نے 12 جولائی کا فیصلہ تحریر کیا تھا، اور جسٹس منیب اختر کو نظرثانی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔

news

ریحام خان نے “پاکستان ریپبلک پارٹی” کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنا لی

Published

on

ریحام خان

پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف عمران خان کی سابقہ اہلیہ، صحافی اور سماجی کارکن ریحام خان نے باضابطہ طور پر اپنی نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ کراچی پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کی جماعت کا نام “پاکستان ریپبلک پارٹی” ہوگا۔ ریحام خان نے کہا کہ ان کی جماعت صرف اقتدار کے حصول کی سیاست نہیں کرے گی بلکہ عوامی فلاح، شفافیت اور انصاف کے لیے جدوجہد کرے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار نہیں اور نہ ہی عارضی سیاست دان ہیں، بلکہ وہ اگلے 30 سال کی حکمت عملی لے کر میدان میں آئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام میں عام شہری کی آواز دبائی جاتی ہے لیکن پاکستان ریپبلک پارٹی ہر نظرانداز شدہ طبقے کی نمائندہ بنے گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی سیاست خدمت اور عوامی مسائل کے حل پر مبنی ہوگی، کیونکہ ملک میں ابھی بھی لوگ صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ ریحام خان نے بتایا کہ بی بی سی سے استعفیٰ دینے کے بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ چار سال گزار چکی ہیں اور اس دوران انہیں پاکستان سے محبت ہو گئی، اس لیے اب وہ سیاست کے ذریعے ملک کی خدمت کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کراچی پریس کلب کو سیاسی جدوجہد کے آغاز کی علامت قرار دیا اور کہا کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عوام سے جڑنے اور ان کی آواز بننے کا عزم رکھتی ہیں۔

جاری رکھیں

news

الیکشن کمیشن نے جمشید دستی کو جعلی ڈگری پر نااہل قرار دے دیا

Published

on

الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کو جعلی تعلیمی اسناد کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ فیصلہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس پر محفوظ کیا گیا تھا جو اب جاری کر دیا گیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ جمشید دستی نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں اثاثے چھپائے اور جھوٹے تعلیمی کوائف جمع کروائے۔ درخواست گزار کے مطابق جمشید دستی نے ایف اے پاس ہونے کا دعویٰ کیا تھا، جب کہ وہ نہ میٹرک پاس ہیں نہ ایف اے۔ یاد رہے کہ جمشید دستی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی سے کیا تھا اور بعد ازاں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن جیت کر حنا ربانی کھر کے والد کو شکست دی تھی۔ حالیہ انتخابات میں وہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے، اور ان کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جنہیں 9 مئی کے بعد مبینہ طور پر پارٹی چھوڑنے کے لیے دباؤ کا سامنا رہا۔










جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~