Connect with us

news

اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر تنازع – قانونی اور آئینی چیلنجز

Published

on


اسلام آباد ہائی کورٹ میں حالیہ پیش رفت نے عدلیہ کے اندر ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس تنازع کے مختلف پہلوؤں، قانونی نکات اور ممکنہ اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

1. تنازع کی بنیاد
اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوسری ہائیکورٹس سے ججز کے ٹرانسفر اور ان کی فوری تعیناتی پر جسٹس بابر ستار نے سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کے مطابق بغیر حلف اٹھائے ججز کو انتظامی امور سونپنا غیر قانونی ہے۔

2. جسٹس بابر ستار کا خط
جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس عامر فاروق کو ایک تفصیلی خط لکھا جس میں قانونی اور آئینی نکات پر روشنی ڈالی گئی۔ خط میں واضح کیا گیا کہ ایڈمنسٹریشن کمیٹی کی دوبارہ تشکیل غیر آئینی ہے۔

3. قانونی نکات اور آئینی حوالہ جات

آرٹیکل 194 کی خلاف ورزی: جسٹس بابر ستار کے مطابق، ججز کو حلف لیے بغیر جوڈیشل کام سونپنا آرٹیکل 194 کی صریح خلاف ورزی ہے

اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز 2011: یہ قوانین واضح کرتے ہیں کہ ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں صرف چیف جسٹس اور دو ججز شامل ہو سکتے ہیں۔

4. ججز کے تبادلوں کے مسائل
تبادلوں کے حوالے سے بھی قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں۔ ججز کے تبادلے کے بعد نئے عہدے کے لیے دوبارہ حلف لینا ضروری ہے، جو اس کیس میں نہیں ہوا۔

5. سپریم کورٹ کے ججز کے تحفظات
سپریم کورٹ کے چار ججز نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ ان کے مطابق سنیارٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

6. سنیارٹی لسٹ کے مسائل
سنیارٹی لسٹ میں تبدیلیاں بغیر کسی واضح اصول کے کی گئی ہیں، جس سے عدلیہ میں شفافیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

7. ایڈمنسٹریشن کمیٹی کی دوبارہ تشکیل
ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں نئے ججز کو شامل کرنا جن کا کوئی انتظامی تجربہ نہیں تھا، بھی تنقید کا باعث بنا ہے۔

8. ججز کے حلف کی اہمیت
حلف ایک قانونی عمل ہے جو ججز کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا آئینی جواز فراہم کرتا ہے۔ بغیر حلف کے کوئی بھی جج اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتا۔

9. آئینی اثرات
یہ تنازع آئندہ عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور عدلیہ کے وقار کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

10. شفافیت اور احتساب کی ضرورت
جسٹس بابر ستار کے تحفظات نے عدلیہ میں شفافیت اور احتساب کی ضرورت کو مزید اجاگر کیا ہے۔

11. ممکنہ عدالتی کاروائیاں
ممکن ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جائے جہاں اس کے قانونی اور آئینی پہلوؤں کا مزید جائزہ لیا جائے گا۔

12. عدلیہ کے اندرونی معاملات میں شفافیت
یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ عدلیہ کے اندرونی معاملات میں بھی شفافیت اور قانونی اصولوں کی پاسداری ضروری ہے۔

13. قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کے مطابق، جسٹس بابر ستار کے تحفظات قانونی اور آئینی اعتبار سے درست ہیں اور ان پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔

14. عوامی ردعمل
اس تنازع پر عوامی سطح پر بھی مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ میں شفافیت عوام کے لیے بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

15. نتیجہ
یہ تنازع عدلیہ کے اندرونی معاملات میں شفافیت، احتساب، اور آئینی اصولوں کی پاسداری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ جسٹس بابر ستار کے تحفظات نے ایک اہم بحث چھیڑ دی ہے جو آئندہ عدالتی اصلاحات کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔

اکثر پوچھے جانے والے سوالات (FAQs)

  1. جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے کن اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا؟
    جسٹس بابر ستار نے ایڈمنسٹریشن کمیٹی کی دوبارہ تشکیل اور بغیر حلف لیے ججز کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
  2. آرٹیکل 194 کیا کہتا ہے؟
    آرٹیکل 194 کے تحت کسی بھی جج کو نئی ذمہ داریوں کے لیے حلف لینا ضروری ہے۔
  3. کیا ججز کے تبادلوں کے لیے بھی حلف لینا ضروری ہے؟
    جی ہاں، تبادلے کے بعد نئی ذمہ داریوں کے لیے حلف لینا آئینی طور پر ضروری ہے۔
  4. ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں کون شامل ہو سکتا ہے؟
    اسلام آباد جوڈیشل سروس رولز 2011 کے مطابق، کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو ججز شامل ہو سکتے ہیں۔
  5. کیا یہ تنازع عدلیہ کی ساکھ پر اثر ڈال سکتا ہے؟
    جی ہاں، یہ تنازع عدلیہ کی شفافیت اور ساکھ پر اثر انداز ہو سکتا ہے

news

اپوزیشن کا گرینڈ الائنس، شاہد خاقان عباسی سٹیرنگ کمیٹی کے سربراہ مقرر

Published

on

شاہد خاقان عباسی

اپوزیشن کی جانب سے گرینڈ الائنس کی تشکیل کی جانب اہم پیشرفت سامنے آئی ہے اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو سٹیرنگ کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اپوزیشن رہنماؤں کے اعزاز میں عشائیہ دیا، جس میں مولانا فضل الرحمان، قائد حزب اختلاف عمر ایوب، شاہد خاقان عباسی، علامہ ناصر عباس، صاحبزادہ حامد رضا، اسد قیصر، شبلی فراز، سردار لطیف کھوسہ، مصطفی نواز کھوکھر، جنید اکبر، عاطف خان، شہرام تراکئی، سردار شفیق ترین، اسلم غوری، اخونزادہ حسین اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔
بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر ملک کی سیاسی صورتحال اور اپوزیشن کے گرینڈ الائنس پر تفصیلی گفتگو ہوئی، شرکاء نے ملکی حالات اور بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو کر ملک اور قوم کو بحران سے نکالنے پر اتفاق کیا۔ اس دوران مستقبل میں باہمی روابط بڑھانے اور ملک کو درپیش چیلینجز سے نمٹنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد اور نیشنل ایجنڈا ڈرافٹ کرنے کے لیے سٹیرنگ کمیٹی کے قیام پر بھی اتفاق ہوا۔

معلوم ہوا ہے کہ سٹیرنگ کمیٹی کی سربراہی شاہد خاقان عباسی کو سونپی گئی ہے، اس میں اسد قیصر، شبلی فراز، سینٹر کامران مرتضیٰ، مصطفی نواز کھوکھر، صاحبزادہ حامد رضا، ساجد ترین، ناصر شی شامل ہیں۔

جاری رکھیں

news

سینیٹر ہمایوں مہمند کی حکومت پر تنقید، آئی ایم ایف مشن کی عدلیہ سے ملاقات پر سوالات

Published

on

سینیٹر ہمایوں مہمند

New :
رہنماء پی ٹی آئی سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا ہے کہ حکومت نے سات مہینوں میں ایک فیصد کی بھی گروتھ نہیں دکھائی، جبکہ رواں سال جی ڈی پی کا ہدف 3.5 فیصد تھا۔ عوام سے پوچھیں، آج پی ٹی آئی کے دور کی نسبت زیادہ چیزیں مہنگی ہیں۔ مہنگائی کی بڑھنے کی شرح تو کم ہوئی ہے، لیکن مہنگائی خود کم نہیں ہوئی۔ انہوں نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج تک جتنے بھی آئی ایم ایف پروگرام ہوئے، کبھی بھی آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس سے ملاقات نہیں کی۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایسی کیا صورت حال پیش آئی ہے کہ عدالت میں جا کر جائزہ لینا پڑا۔

اس سے ہمیں دو چیزیں نظر آتی ہیں: ایک تو یہ کہ ججز کی تقرریاں ہوئی ہیں، جس کی بنیادی وجہ آئینی ترامیم ہیں۔ تینوں اداروں یعنی ایگزیکٹو، پارلیمان اور عدلیہ کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی حدود میں رہیں۔ پارلیمان کا کام قانون سازی کرنا ہے، اور بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ حکومت نے قانون میں تبدیلیاں کی ہیں، اور اب ججز کی تقرریوں میں ایگزیکٹو کا اثر و رسوخ شامل کر دیا گیا ہے۔ حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی، قانون اس کی توثیق کر دے گا۔

سینیٹر ہمایوں مہمند نے مزید کہا کہ حکومت نے سات مہینوں میں ایک فیصد جی ڈی پی کی گروتھ نہیں دکھائی، جبکہ اس سال کا ہدف 3.5 جی ڈی پی رکھا گیا تھا۔ عوام سے پوچھیں، آج پی ٹی آئی کے دور کی نسبت زیادہ چیزیں مہنگی ہیں، اور مہنگائی کی بڑھنے کی شرح تو کم ہوئی ہے۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~