Connect with us

news

لاہور کی فضائی آلودگی: سموگ کا بحران اور حکومت کے اقدامات

Published

on

لاہور کی فضائی آلودگی اس وقت ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، اور حالیہ رپورٹ کے مطابق، یہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ شہر میں سموگ کی اوسط شرح ہزار کے ہندسے تک پہنچ گئی ہے، جو صحت کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ لاہور میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں، ٹریفک جام، فیکٹریوں کا دھواں، فصلوں کی باقیات کا جلانا، اور تعمیراتی کام سے پیدا ہونے والی مٹی اور دھول ہے۔

لاہور کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے، اور شہر میں 275 دن سموگ کی وجہ سے غیر صحت مند ہوا ہوتی ہے۔ لاہور میں موٹر سائیکلوں کی تعداد 45 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اور روزانہ 1800 نئی موٹر سائیکلز کی رجسٹریشن ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ شہر میں 13 لاکھ گاڑیاں بھی چل رہی ہیں جن میں بسیں اور ٹرک شامل ہیں، جو آلودگی کے ذرائع ہیں۔ صنعتی یونٹس اور بھٹوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، جو اس صورت حال کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق آلودگی میں اضافہ کرنے والے عوامل میں صرف گاڑیاں ہی نہیں بلکہ تعمیراتی سرگرمیاں، ٹائر جلانا، اور دھواں چھوڑنے والی فیکٹریاں بھی شامل ہیں۔ لاہور کا گرین ایریا صرف 3.3 فیصد بچا ہے، جو ایک تشویش کا باعث ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسٹرن ہواؤں کے باعث آلودگی کی شرح میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

حکومت پنجاب سموگ کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے، جیسے کہ سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ، گرین لاک ڈاؤن اور تعلیمی اداروں کی بندش۔ شہر میں 31 جنوری تک ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے اور مارکیٹوں اور ہوٹلوں کو رات 8 بجے بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شہریوں کو احتیاطی تدابیر اپنانا چاہیے جیسے کہ ماسک اور گلاسز کا استعمال، اور جب تک ضروری نہ ہو گھروں سے باہر نہ نکلنا۔ اس کے علاوہ مصنوعی بارش برسانے کے طریقے بھی زیر غور ہیں تاکہ آلودگی کی سطح کو کم کیا جا سکے۔

ماہر غذائیات کا کہنا ہے کہ سموگ کے اثرات سے بچنے کے لیے اچھی خوراک کھانا ضروری ہے، جیسے کہ ادرک، لہسن، اور شہد والے مشروبات۔ شہریوں کو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں سے گریز کرنا چاہیے اور اپنے ماحول کو صاف رکھنے کے لیے درخت لگانے چاہئیں۔

اگرچہ حکومت کی جانب سے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن اس بحران سے نمٹنے کے لیے شہریوں کی مدد اور شعور کی بہت ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ محض حکومتی سطح پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر حل کرنا ہوگا۔

news

دہشتگردی نیٹ ورک کا خاتمہ: آرمی چیف کا دورہ پشاور، آئی ایس پی آر

Published

on

سید عاصم منیر

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا پشاور کا دورہ اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کے خاتمے کے حوالے سے عزم کا اظہار ایک اہم بیان ہے۔ اس دورے میں انہوں نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں پر تفصیلی بریفنگ لی بلکہ فوجیوں کی قربانیوں اور ان کے بلند حوصلے کی بھی تعریف کی۔ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاک فوج دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہے، اور انہوں نے اس عزم کو قومی سلامتی کے تحفظ اور استحکام کے لیے ضروری قرار دیا۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ یہ قربانیاں اور فوج کا غیر متزلزل عزم ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کی بنیاد ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم اور سکیورٹی فورسز کا اتحاد اور اجتماعی عزم اہمیت رکھتا ہے اور دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

اس دورے کا مقصد نہ صرف پشاور میں جاری انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا جائزہ لینا تھا بلکہ صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی تیاری بھی تھی، جس میں صوبائی سطح پر دہشت گردی کے خطرات اور ان کے تدارک کے لیے حکمت عملی تیار کی جائے گی۔

جنرل عاصم منیر نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستانی فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف مربوط اور بھرپور کارروائیوں کے ذریعے پائیدار امن و استحکام کو یقینی بنائیں گے۔ اس کا مقصد دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو مکمل طور پر ختم کر کے پاکستان میں امن و سکون قائم کرنا ہے۔

جاری رکھیں

news

بلوچستان روڈ انفراسٹرکچر:400 ارب کے منصوبے کے لیے تین سال کی ڈیڈ لائن

Published

on

احسن اقبال

وفاقی وزیر احسن اقبال کا بلوچستان میں سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے حوالے سے یہ فیصلہ ایک اہم قدم ہے جس سے نہ صرف صوبے کی ترقی میں تیزی آئے گی بلکہ پورے ملک کے انفرا اسٹرکچر میں بہتری آ سکتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت 400 ارب روپے کی لاگت سے بلوچستان کے مختلف اہم سڑکوں کی تعمیر و بحالی کی جائے گی، جن میں خضدار-کچلاک روڈ، کراچی-کوئٹہ-چمن روڈ، اور گوادر-رتوڈیرو روڈ جیسے اہم منصوبے شامل ہیں۔

یہ منصوبے بلوچستان کی جغرافیائی اور اقتصادی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیے گئے ہیں، خاص طور پر گوادر کی بندرگاہ کی ترقی کے حوالے سے، جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا ایک کلیدی حصہ ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد بلوچستان کے دیہی علاقوں کو مرکزی شہروں سے جوڑنا اور صوبے میں تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانا ہے۔

احسن اقبال نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تمام پی ایس ڈی پی منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے جامع حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ فنڈز کا موثر استعمال ہو سکے اور ان منصوبوں کے ثمرات عوام تک جلد پہنچ سکیں۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ 80 فیصد مکمل ہونے والے منصوبوں کو مزید تیز کر دیا جائے تاکہ ان کے لیے مختص فنڈز کا بہترین استعمال کیا جا سکے اور نئی ترقیاتی اسکیموں کے لیے جگہ بن سکے۔

اس کے علاوہ، وفاقی وزیر نے پی ایس ڈی پی کے تحت دیگر وزارتوں کی مالی ضروریات پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ بیرونی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے فنڈز کی بروقت تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔

یہ اقدامات نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی ترقی کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں، اور اس سے پورے ملک میں سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کی حالت میں بہتری آنے کی امید ہے۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~