Connect with us

news

سپریم کورٹ میں ارٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظر ثانی

Published

on

کیس کی سماعت کے لیے ایک نئے بینچ کی تشکیل دے دی گئی جس میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس نعیم اختر افغان کو پانچ رکنی بینچ میں شامل کر لیا گیا۔ چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا جبکہ دوسری جانب سپریم کورٹ نے ارٹیکل 63 نظر ثانی اپیل کیس کی کاز لسٹ جاری کر دی ۔

Image result for JUSTICE MUNIB AKHTAR

چیف جسٹس نے کمیٹی میٹنگ اور جسٹس منیب اختر کے حوالے سے سماعت کے آغاز میں کہا کہ عدالت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔جسٹس منیب اختر کو کل سماعت کے بعد بینچ میں شمولیت کی درخواست دی گئی تھی ،انہوں نے اپنی پوزیشن برقرار رکھی اور کہا میں نے کمیٹی میں جسٹس منصور علی شاہ کو بھی شامل کرنے کی سفارش کی ۔سپریم کورٹ میں جو ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہوتا ہے ججز کمیٹی کو نو بجے بلایا گیا، جسٹس منظور علی شاہ کا انتظار کیا گیا، ان سے رابطہ بھی کیا مگر ان کی جانب سے انکار کر دیا گیا ۔ہمارے پاس کوئی دوسرا اپشن نہیں رہا ،میں نہیں چاہتا کہ دیگر ججز کو پریشان کیا جائے اس لیے نعیم افغان کو نئے بینچ میں شامل کر لیا

تا ہم جب سماعت شروع ہوئی تو جسٹس منیب غیر حاضر تھے جسٹس منیب اختر نے خط میں جسٹس مظہر عالم کو بینچ میں شامل کرنے پراعتراض اٹھایا ۔انہوں نے کہا جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم اس وقت ارٹیکل 182 کے مطابق ایڈہاک جج کی حیثیت سے سپریم کورٹ کے اجلاس میں شریک ہیں۔

جسٹس مظہر اور ایک اور ریٹائرڈ جج سے درخواست کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا اس سے متعلق تمام وجوہات 19 جولائی 2024 کو جے سی پی کی میٹنگ کے منٹس میں بیان کر دی گئی تھیں۔ سی ار پی کی سماعت کے لیے بینچ میں ان کی شمولیت ارٹیکل 182 کے خلاف ہے ۔چیف جسٹس نے کیس کی سماعت ائندہ منگل تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ وہ جج کو بینچ کا حصہ بننے کے لیے کہیں گے کیونکہ نظر ثانی درخواست کی سماعت ریل کیس کے مطابق پانچ رکنی بینچ نے کرنی ہے۔

تاہم عدالت کل صبح ساڑھے11بجے دوبارہ سماعت کرے گی اور اگر جسٹس منیب اختر بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتے تو ان کی جگہ کسی اور جج کو شامل کر دیا جائے گاپیر کی شام کو جاری کیے گئے تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ جسٹس منیب اختر نے بینچ نمبر تین کی سربراہی کی اور مقدمات کی سماعت کی لہذا رجسٹرار کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ فوری حکم نامہ اپنی لارڈ شپ کے سامنے پیش کرےاور بینچ میں شامل ہونے کی درخواست کرے اگر وہ ایسا نہ کریں تو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی دفعہ دو کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹی کو بینچ میں ان کی جگہ کسی اور جج کی تقریری کرنی ہوگی

news

انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے،عمران خان

Published

on

سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر نے ان سے احتجاج ملتوی کرنے کی پیشکش کی تھی، تاکہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ عمران خان نے بتایا کہ ان کا مطالبہ تھا کہ انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے، لیکن حکومت نے اس مطالبے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
عمران خان نے کہا کہ مذاکرات چلتےرہے مگر یہ واضح ہو گیا کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور صرف احتجاج ملتوی کرانا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی، اور حکومت کے پاس موقع تھا کہ وہ انہیں رہا کر دیتی، لیکن یہ ظاہر ہو گیا کہ حکومت معاملہ کو طول دینا چاہتی ہے اور اصل طاقت وہی ہے جو یہ سب کچھ کروا رہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اس سب کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ان پر مزید کیسز بنائے جا رہے ہیں، اور اس صورتحال کو “بنانا ریپبلک” کہا جا رہا ہے۔ عمران خان نے وکلا، ججز، مزدوروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی ہے کہ 24 نومبر کو احتجاج کے لیے باہر نکلیں۔عمران خان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی تھی، مگر اس کے باوجود حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کی رہائی نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا، اور 24 نومبر کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا بڑا احتجاج ہوگا کیونکہ وہ آزاد ممالک میں رہتے ہیں اور اگر حکومت بات چیت میں سنجیدہ ہے تو ان کے گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
عمران خان نے کہا کہ جیل میں رہتے ہوئے ان پر 60 کیسز درج کیے جا چکے ہیں، اور نواز شریف کے حوالے سے بھی سوال اٹھایا کہ انہوں نے کتنے شورٹی بانڈز جمع کروائے تھے اور بائیو میٹرک بھی ائیرپورٹ تک گئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو مذاکرات ہو رہے ہیں، ان میں سنجیدگی نہیں ہے، اور ان مذاکرات کا مقصد صرف وقت گزارنا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں تمام گرفتار افراد کی رہائی شامل ہے، اور جب تک ان لوگوں کو رہا نہیں کیا جاتا، مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام اہم کیسز میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود رہائی نہیں دی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات میں سنجیدگی کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتیں۔

جاری رکھیں

news

عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمہ میں پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور، انسداد دہشت گردی عدالت

Published

on

عمران خان

راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمے میں 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ یہ فیصلہ اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران سنایا گیا، جہاں عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور حکومتی پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل پیش کیے۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر، ظہیر شاہ نے عدالت میں عمران خان کے 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی، اور ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کال پر، جس میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود، مظاہرین نے سرکاری املاک پر حملے کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 28 ستمبر کو ہونے والے احتجاج کی منصوبہ بندی اڈیالہ جیل میں کی گئی تھی اور وہیں سے اس احتجاج کے لیے کال دی گئی تھی۔
عدالت نے حکومتی پراسیکیوٹر کی درخواست پر عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی 5 روزہ مدت منظور کر لی۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ڈیڑھ سال سے اڈیالہ جیل میں قید تنہائی میں ہیں، وہ جیل میں رہ کر کیسے اتنی بڑی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں؟ یہ مقدمہ سیاسی انتقامی کارروائی ہے اور درج متن مفروضوں پر مبنی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے پراسیکیوٹر کی جانب سے 15 دن کے ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عمران خان کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو 26 نومبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ عمران خان سے جیل کے اندر ہی تفتیش کی جائے۔
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی پر 28 ستمبر کو راولپنڈی میں احتجاج پر اکسانے کا کیس ہے جس میں توشہ خانہ ٹو سے ضمانت ملنے کے بعد گزشتہ روز ان کی گرفتاری ڈالی گئی تھی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~