Connect with us

news

پاکستانی روپے اور امریکی ڈالر کی شرح تبادلہ میں تبدیلی لاگت میں اضافے کا باعث: شہزاد ارشد

Published

on

وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرو وائڈرز ایسوسییشن آف پاکستان کے چیئرمین شہزاد ارشد نے پاکستان میں انٹرنیٹ سروس کی بلا تعطل فراہمی میں درپیش رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم فائبر آپٹک نیٹ ورکس میں ضروری سرمایہ کاری کرنے میں ناکام ہیں جو کہ ہماری کنیکٹیوٹی کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنا سکتا ہے
سلو اور پوور انٹرنیٹ سروس کی بدولت تعلیم اور کاروبار سے لے کر انٹرنیٹ پر انحصار کرنے والے ہر شعبہ زندگی متاثر دکھائی دیتا ہے
پاکستان میں آئی ایس پیز کو درپیش چیلنجوں میں سب سے اہم مسئلہ رائٹ اف وے کا ہے یعنی جب ہم اپنے نیٹ ورک کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ہمیں ناقابل تسخیر مالی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے
ڈبلیو ائی ایس پیز کے چیئرمین شہزاد ارشد نے مزید کہا کہ جب پاکستان ریلویز سے فائبر اپٹک کیبلز کو ریلوے لائنوں کو اوور ہیڈ یا انڈر گراؤنڈ کراس کرنے کی اجازت دینے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے دو ملین پاکستانی روپے کا مطالبہ کر دیا یہ چیلنج ہاؤسنگ سوسائٹیز کی طرف سے عائد کی جانے والی فیسوں سے بھی زیادہ ہے خصوصا ترقی یافتہ علاقے جو ائی ایس پیز کو فائبر اپٹک کیبل بچھانے کی اجازت دینے کے لیے مختلف چارجز کا مطالبہ کرتے ہیں ہم پر بنیادی طور پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے تاکہ ملک کے ڈیجیٹل مستقبل کو اگے بڑھانے کا بنیادی ڈھانچہ بچایا جا سکے یہ تو صرف چند اندرونی مسائل ہیں
اجارہ دارانہ بین الاقوامی گیٹ ویز سے نمٹنے کا بوجھ علیحدہ ہے جو عالمی سطح پر انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی انتہائی شرح پر فراہم کر رہا ہے یہ گیٹ ویز ائی ایس پیز کو امریکی ڈالر میں چارج کرتے ہیں جبکہ مقامی ائی ایس پی پاکستانی روپے میں کمائے جاتے ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی ڈالر اور پاکستانی روپے کی شرح تبادلہ میں اتار چڑھا ہو براہ راست ہماری لاگت کو بڑھاتا ہے یہ نظام غیر پائیدار ہے ہم ان بڑھے ہوئے اخراجات کو صار فین پر منتقل کرنے پر مجبور ہیں یہی وجہ ہے کہ ان انٹرنیٹ مہنگا ہو رہا ہے اور اس کی رفتار میں کمی واقع ہو رہی ہے

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے،عمران خان

Published

on

سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر نے ان سے احتجاج ملتوی کرنے کی پیشکش کی تھی، تاکہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ عمران خان نے بتایا کہ ان کا مطالبہ تھا کہ انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے، لیکن حکومت نے اس مطالبے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
عمران خان نے کہا کہ مذاکرات چلتےرہے مگر یہ واضح ہو گیا کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور صرف احتجاج ملتوی کرانا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی، اور حکومت کے پاس موقع تھا کہ وہ انہیں رہا کر دیتی، لیکن یہ ظاہر ہو گیا کہ حکومت معاملہ کو طول دینا چاہتی ہے اور اصل طاقت وہی ہے جو یہ سب کچھ کروا رہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اس سب کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ان پر مزید کیسز بنائے جا رہے ہیں، اور اس صورتحال کو “بنانا ریپبلک” کہا جا رہا ہے۔ عمران خان نے وکلا، ججز، مزدوروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی ہے کہ 24 نومبر کو احتجاج کے لیے باہر نکلیں۔عمران خان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی تھی، مگر اس کے باوجود حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کی رہائی نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا، اور 24 نومبر کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا بڑا احتجاج ہوگا کیونکہ وہ آزاد ممالک میں رہتے ہیں اور اگر حکومت بات چیت میں سنجیدہ ہے تو ان کے گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
عمران خان نے کہا کہ جیل میں رہتے ہوئے ان پر 60 کیسز درج کیے جا چکے ہیں، اور نواز شریف کے حوالے سے بھی سوال اٹھایا کہ انہوں نے کتنے شورٹی بانڈز جمع کروائے تھے اور بائیو میٹرک بھی ائیرپورٹ تک گئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو مذاکرات ہو رہے ہیں، ان میں سنجیدگی نہیں ہے، اور ان مذاکرات کا مقصد صرف وقت گزارنا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں تمام گرفتار افراد کی رہائی شامل ہے، اور جب تک ان لوگوں کو رہا نہیں کیا جاتا، مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام اہم کیسز میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود رہائی نہیں دی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات میں سنجیدگی کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتیں۔

جاری رکھیں

news

عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمہ میں پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور، انسداد دہشت گردی عدالت

Published

on

عمران خان

راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمے میں 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ یہ فیصلہ اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران سنایا گیا، جہاں عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور حکومتی پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل پیش کیے۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر، ظہیر شاہ نے عدالت میں عمران خان کے 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی، اور ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کال پر، جس میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود، مظاہرین نے سرکاری املاک پر حملے کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 28 ستمبر کو ہونے والے احتجاج کی منصوبہ بندی اڈیالہ جیل میں کی گئی تھی اور وہیں سے اس احتجاج کے لیے کال دی گئی تھی۔
عدالت نے حکومتی پراسیکیوٹر کی درخواست پر عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی 5 روزہ مدت منظور کر لی۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ڈیڑھ سال سے اڈیالہ جیل میں قید تنہائی میں ہیں، وہ جیل میں رہ کر کیسے اتنی بڑی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں؟ یہ مقدمہ سیاسی انتقامی کارروائی ہے اور درج متن مفروضوں پر مبنی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے پراسیکیوٹر کی جانب سے 15 دن کے ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عمران خان کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو 26 نومبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ عمران خان سے جیل کے اندر ہی تفتیش کی جائے۔
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی پر 28 ستمبر کو راولپنڈی میں احتجاج پر اکسانے کا کیس ہے جس میں توشہ خانہ ٹو سے ضمانت ملنے کے بعد گزشتہ روز ان کی گرفتاری ڈالی گئی تھی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~