Connect with us

خاص رپورٹ

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے اظہار کیا ہے کہ عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت جلد خاتم ہو جائے گی۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد خان کا کہنا ہے کہ فی الحال عدلیہ کے سامنے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا مسئلہ موجود ہے۔ عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے اور اس مداخلت کا اختتام جلد متوقع ہے۔
’’ایک جج نے مداخلت کی شکایت کی ہے‘‘

Published

on

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد نے راولپنڈی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اظہار کیا کہ عدلیہ میں اداروں کی مداخلت کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ دو تین دن پہلے ایک جج کی شکایت بھی سامنے آئی ہے، جس میں جج نے مداخلت کے سارے واقعات بیان کیے ہیں۔ انہوں نے اظہار کیا کہ وہ اس کے باوجود خوفزدہ نہیں ہیں، صرف چیف جسٹس کے علم میں لانا چاہتے ہیں۔ ان کا نام لینا مناسب نہیں لیکن عدلیہ بغیر لالچ کے کام کر رہی ہے۔

’’ کے الفاظ سے میرا ڈیڑھ کلو خون بڑھا‘‘

ان کا کہنا ہے کہ جج نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر لکھا کہ ہمارے ساتھ یہ سب ہو رہا ہے، جج نے کہا کہ میں خوفزدہ نہیں ہوں گا، ہر قربانی کے لیے تیار ہوں، جج کے الفاظ سے میرا ڈیڑھ کلو خون بڑھ گیا، مجھے عدلیہ میں مزید شکایات بھی آئی ہیں، مجھے فخر ہے کہ ضلعی عدلیہ بغیر خوف کے فرائض سر انجام دے رہی ہے، اگر آسمان والے خدا کا خوف دل میں ہو گا تو مشکلات حل ہو جائیں گی، عدلیہ ان افراد کی بلیک میلنگ میں نہ آئے، اسٹیبلشمنٹ کی عدلیہ میں مداخلت جلد ختم ہونے والی ہے، اس میں میرا تجربہ بھی شامل ہے اور پورا یقین ہے کہ یہ مداخلت جلد ختم ہو گی۔

’’مداخلت کا سامنا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کرنا ہے‘‘


چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو اس مداخلت کا سامنا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کرنا ہے، کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا ہے، جج کی بات سن کر خوشی ہوئی کہ ضلعی عدلیہ بھی بغیر کسی ڈر، خوف اور لالچ کے کام کر رہی ہے، جب بغیر کسی خوف اور ڈر کے انصاف فراہم کریں گے تو اللّٰہ کی مدد حاصل ہو گی۔’’13 سال ہو گئے آج بھی گھر پر وکیل کی تختی لگی ہے‘‘

’’13 سال ہو گئے آج بھی گھر پر وکیل کی تختی لگی ہے‘‘

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، ملک شہزاد احمد خان، نے کہا ہے کہ عدلیہ تحریک سے پہلے لوگ کہتے تھے کہ جج ایک بار گھر چلا جائے تو واپس نہیں آتا، افتخار چوہدری اکیلے تھے جو ڈکٹیٹر کے خلاف نکلے، راولپنڈی بار کے غیور وکلاء کے قدم پھیلے نہ پیچھے ہٹے، اس وکلا تحریک کے بعد ججز بحال ہوئے، عدلیہ تحریک نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کیا، ناممکن کو ممکن کر کے دکھایا، عدلیہ تحریک نے مارشل لاء کا راستہ بند کیا، عدلیہ میں مداخلت کا مقابلہ اس ایمان کے ساتھ کرنا ہے کہ یہ مداخلت جلد ختم ہو جائے، 13 سال ہو گئے ہیں اور آج بھی گھر پر وکیل کی تختی لگی ہے۔

’’وکلاء نے ہڑتال اور تالہ بندی کا کلچر دفن کر دیا‘‘

“انہوں نے بتایا کہ عدالتوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے، جو جج کی نظر نہ آئے ان کے خلاف نوٹس لے کر انکوائری شروع کی گئی، ان تمام اقدامات سے بہتر نتائج حاصل ہوئے، مقدمات میں تاخیر کی بڑی وجہ وکلاء کی ہڑتالیں تھیں، پروفیشنل وکلاء نے ہڑتال کلچر ختم کرنے میں بہت مدد کی، میرے چیف جسٹس بننے سے پہلے 73 روز وکلاء ہڑتال رہی۔ چیف جسٹس بننے کے بعد فل کورٹ میٹنگ بلائی گئی، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہڑتال کلچر برداشت نہیں ہوگا۔ 13 مئ 2024ء کو پنجاب کی عدلیہ کو سرکلر جاری کیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ ہڑتال کی کسی کال کو نہیں مانی جائے گی، چاہے وہ کال ہو یا نہ ہو، کام قانون کے مطابق کیا جائے گا۔ پنجاب کے تمام وکلاء نے ہڑتال اور تالہ بندی کے کلچر کو ختم کر دیا، ان کا مقصد عدالت کو رکاوٹ نہیں بنانا تھا۔”

’’وکلاء تحریک کے سبب مارشل لاء کی لعنت سے جان چھوٹی‘‘

“چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، ملک شہزاد احمد خان کا کہنا ہے کہ ملک کے 90 فیصد وکلاء اچھے لوگ ہیں، پنجاب میں 2 لاکھ سے زائد نئے کیسز دائر ہوئے، 3 لاکھ سے زائد کیسز کا فیصلہ ہوا، اس سے زیرِ التواء مقدمات میں واضح کمی ہوئی، راولپنڈی بار کے غیور وکلاء نے قدم پیچھے نہ ہٹائے، وکلاء تحریک کے بعد ججز بحال ہوئے، عہدے جانے کا خوف نہیں، جدوجہد کے بعد جمہوری دور آیا، وکلاء تحریک کے بعد سویلین حکومت کو اتنا لمباوقت ملا، وکلاء تحریک کی وجہ سے مارشل لاء کی لعنت سے جان چھوٹی، سویلین حکومت جیسی بھی ہے لیکن مارشل لاء کی لعنت سے جان چھوٹی، اس ملک میں بہتری لانے کے لیے وکلاء، میڈیا اور پارلیمنٹیرین اپنا اپنا کردار ادا کریں۔”

news

خیبرپختونخواہ: طالبات کیلئے مفت ٹرانسپورٹ اور زائد فیس لینے والے سکولوں کیخلاف کارروائی

Published

on

مفت ٹرانسپورٹ

خیبرپختونخواہ حکومت نے مڈل سکول کی طالبات کے لیے مفت ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ حکومت کی جانب سے تعلیمی سہولیات کے فروغ اور بچیوں کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے یہ اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔

ابتدائی مرحلے میں یہ سہولت صوبے کے 10 پسماندہ اضلاع کی طالبات کو فراہم کی جائے گی، جن میں اپر کوہستان، لوئر کوہستان، کولئی پالس، تورغر، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو، کوہاٹ، بنوں اور چارسدہ شامل ہیں۔ اس فیصلے کا اطلاق آئندہ تعلیمی سال سے ہوگا۔

صوبائی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں متعلقہ اضلاع کے ایجوکیشن افسران کو مراسلہ بھیج دیا گیا ہے، جس میں ٹرانسپورٹ سہولت کے نفاذ کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اس اقدام کا مقصد طالبات کو درپیش سفری مشکلات کو کم کرنا ہے، خصوصاً ان بچیوں کے لیے جن کے اسکول ان کے گھروں سے ڈیڑھ کلومیٹر یا اس سے زیادہ فاصلے پر واقع ہیں۔

علاوہ ازیں، خیبرپختونخواہ حکومت نے میٹرک کے امتحانات میں شرکت کرنے والے طلبہ و طالبات سے پرائیویٹ اسکولوں کی جانب سے مقررہ فیس سے زائد رقم وصول کرنے پر سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں کیا گیا، جس میں امتحانات کے دوران نقل کی روک تھام اور فیسوں کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ تعلیمی بورڈ نے میٹرک امتحان کے لیے 2600 روپے فیس مقرر کی ہے، تاہم کئی پرائیویٹ اسکول اس سے زائد فیس وصول کر رہے ہیں۔ اس معاملے پر کمشنر پشاور ڈویژن نے چیئرمین بورڈ کو ان اسکولوں کی فہرست ڈپٹی کمشنرز کو فراہم کرنے کی ہدایت کی، تاکہ پرائیویٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی کے تعاون سے زائد فیس وصول کرنے والے اسکول مالکان کے خلاف کارروائی کی جا سکے اور طلبہ سے وصول کی گئی اضافی فیس واپس کروائی جا سکے۔

یہ دونوں اقدامات خیبرپختونخواہ حکومت کی تعلیم کے فروغ اور طلبہ و طالبات کو سہولیات کی فراہمی کی سنجیدہ کوششوں کا حصہ ہیں۔

جاری رکھیں

news

وفاقی بجٹ 2025/26: اشیائے خوردونوش پر 50٪ تک ٹیکس بڑھانے پر غور

Published

on

اشیائے خوردونوش پر ٹیکسوں میں 50 فیصد

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2025-26ء کے بجٹ میں اشیائے خوردونوش پر ٹیکسوں میں 50 فیصد تک اضافے پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، حکومت مشروبات اور پروسیس شدہ کھانے پینے کی اشیاء پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) میں نمایاں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کے نتیجے میں ان اشیاء کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔

ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق، میٹھے مشروبات جیسے سافٹ ڈرنکس، جوسز، کاربونیٹیڈ سوڈا واٹر، اور دیگر مصنوعی مٹھاس والے مشروبات پر عائد موجودہ 20 فیصد ڈیوٹی کو 40 فیصد تک بڑھانے کی تجویز زیر غور ہے۔ اس میں پھلوں کے گودے سے تیار کردہ مشروبات، شربت، سکواش اور دیگر ذائقہ دار مشروبات بھی شامل ہیں، جو اب نئے ٹیکس نیٹ میں آسکتے ہیں۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ صنعتی سطح پر تیار کردہ ڈیری مصنوعات، جیسے پیک شدہ دودھ، دہی اور دیگر پروسیسڈ مصنوعات پر بھی 20 فیصد نیا ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، گوشت سے بنی اشیاء جیسے ساسیجز، خشک یا نمکین گوشت اور باربی کیو پروڈکٹس پر بھی ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز ہے۔

مزید یہ کہ پروسیسڈ فوڈز کی ایک وسیع رینج، جن میں چیونگم، چاکلیٹ، کینڈی، کیریمل، بسکٹ، پیسٹری، کارن فلیکس اور دیگر ناشتے کے سیریلز شامل ہیں، ان پر بھی ٹیکس بڑھنے کا امکان ہے۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~