Connect with us

news

گورنر پنجاب بمقابلہ وزیراعلیٰ پنجاب

Published

on

سردار سلیم حیدر خان

میرا خیال تھا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کے اچھے لوگوں کو یونیورسٹیوں میں اپوائنٹ کریں گے کیونکہ یہ یونیورسٹیز جو ہیں یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے وہاں ہزاروں کی تعداد میں ہمارے بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور وہ ہمارا آنے والا مستقبل ہیں ان پہ وائس چانسلر وہ ہونے چاہیں جو اس معیار کے ہوں کہ ان کو بنا سکیں جو ان بچوں کو ایک قوم بنا سکیں میرا باقی اس کے علاوہ نہ کوئی جھگڑا ہے نہ کوئی لڑائی ہے اس پہ آگے معاملات چل رہے ہیں انشاء اللہ دیکھیں میں نے بتایا اور بالکل واضح طریقے سے بتایا کہ وہ جو وائس چانسلر صاحبان ہیں بہت ساروں پہ بہت بہت سارے معاملات ہیں کسی کا نام لینا مناسب نہیں ہے ،لیکن ان کا بیک گراؤنڈ اپ خود دیکھ لیں سارے دیکھے بھالے لوگ ہیں ،اور ان پہ جو چارجز ہیں اس کے بعد میرا خیال ہے ان کو ری کنسیڈر کرنا بہت ضروری تھا اور ان کو ری کنسیڈر ہونا چاہیےمیں نے جو سمری ریجیکٹ کی ہے اس میں لکھا ہے یہ جو پراسس ہے اس پہ بہت ساری انگلیاں اٹھی ہیں اس میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں کہ جن پہ بہت سارے چارجز ہیں کرپشن کے چارجز بھی ہیں باقی معاملات بھی بہت سارے ہیں اب میرے لیے یہ مناسب نہیں ہے میں چانسلر ہوں کہ میں ان وائس چانسلر کے نام لے کے آپ کو کہوں کہ فلانے پہ یہ ہے فلانے پہ یہ آپ دیکھیں خود سمجھدار لوگ ہیں اپ میرے سے زیادہ جانتے ہیں زیادہ باخبر ہیں آپ کو سارا پتہ ہے آپ خود اس کو چیک کر سکتے ہیں اور اس کو دیکھ سکتے ہیں اس میں یہ اچھا نہیں لگتا کہ میں بحیثیت گورنر اور بحیثیت چانسلر کہوں کہ فلاں وائس چانسلر جو اپوائنٹ ہوا ہے اس پہ یہ ہے فلانے پہ یہ ہے یہ میں کسی طرح نہیں کہوں گاآپ کسی ایک کا نام بتا دیں جس کو میں لگانا چاہتا ہوں میں تو ہر جگہ یہ واضح طور پہ کہہ رہا ہوں میں کسی کو نہیں لگانا چاہتا میں چاہتا ہوں کہ پراپر لوگ لگیں میری کوئی خواہش نہیں ہے اور سب سے بڑا میرا سوال یہ ہے کہ یہ جو وائس چانسلر اپوائنٹ ہوئے ہیں یا جو سرچ کمیٹی نے بھیجے ہیں کیا پورے پنجاب میں یہی لوگ ہیں جن میں سے اگر ایک پنجاب یونیورسٹی سے ہے اس کو ٹرانسفر کر کے جی سی میں لگا دیں جو جی سی کا ہے اس کو فیصل اباد میں لگا دیں باقی ہمارے پیچھے سے کوئی ایسی کریم نہیں آرہی کوئی ایسا پڑھا لکھا طبقہ نہیں آرہا کہ جو اس قابل ہو ان سرچ کمیٹیز میں بھی میں بالکل کلیئر اپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میری نہ کوئی خواہش ہے کسی کو وائس چانسلر لگانے کی نہ میں نے چیف منسٹر صاحبہ سے ایسی کوئی بات کی ہے

وائس چانسلر لگانے کی نہ میں کوئی وائس چانسلر لگانا چاہتا ہوں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے تو یا تو سامنے آ کے بتائے یا حلف پہ کہے کہ گورنر نے کسی کو کہا ہے میں تو حلف پہ کہتا ہوں کہ میری خواہش ہی کوئی نہیں ہے کسی کو وائس چانسلر لگانے کی دو کروڑ کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے مجھے دو کروڑ روپے بھیجے ہوتے تو میں پھر اپ کو بتاتا کہ مجھے دو کروڑ روپے ملے ہیں کسی کی جرات ہی نہیں ہے کہ مجھے دو کروڑ چھوڑ کر کوئی دو روپے بھی بھیجے ہماری کشتی ڈوبے یا تیرتی رہے دونوں صورتوں میں ہم ساتھ ہیں جب اپوزیشن گورنمنٹ میں ہے تو ہم ان کے ساتھ ہیں ائینی ترمیم میں پیپلز پارٹی کا موقف بالکل واضح ہے ایک سائن ڈاکومنٹ جس کو چارٹر اف ڈیموکریسی کہتے ہیں اس پر میاں نواز شریف صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بھی سگنیچر ہیں ہمارا اس ائینی ترمیم میں سب سے بڑا کنسرن وہی چارٹر اف ڈیمو کریسی ہے جس کے بہت سارے نکات 18 ویں ترمیم میں شامل ہوئے پھر انیسویں ترمیم میں سے کچھ نکات کو خراب کر دیا گیا بعد میں پورے پاکستان نے دیکھا کہ جو خرابی کی گئی اسی کی وجہ تین چیف جسٹس صاحبان تھے انہوں نے اپنی پسند کے فیصلے کیے وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے منہ سے جو نکل رہا ہے یہی قانون ہے تینوں چیف جسٹس صاحبان نے اس ملک کا بہت نقصان کیا اور ایسے ایسے فیصلے کیے کہ جو میرا خیال میں عدالتی تاریخ میں باعث شرمندگی ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ 19 ویں ترمیم میں اس پہلی ترمیم کے اس طریقہ کار کو چینج کیا گیا جس میں چیف جسٹس ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا تبدیل کیا جانا تھا ہم نے اس بیلنس اف پاور کو برابر کرنا ہے ہم چاہتے ہیں کہ ججز میرٹ پر آئیں پچھلے تین چیف جسٹس صاحبان اپنی پسند کے اپوائنٹ کیے جاتے رہے کیونکہ پاور ان کے پاس تھی ہماری دوسری خواہش یہ ہے کہ جو چیزیں اٹھارویں ترمیم میں چارٹر اف ڈیموکریسی کی رہ گئیں ان کو اس آئینی ترمیم میں ڈالا جائے بلاول بٹو صاحب اسی کے لیے کوشش کر رہے ہیں اکانومی کے حوالے سے ملک میں کافی مشکلات تھیں اہستہ اہستہ چیزیں بہتر ہو رہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی طور پر چیزیں اگے چلنا شروع ہوئی ہیں تو پھر اکانومی جو ہے وہ بہتر ہوئی ہے ائی ایم ایف کا پیکج ہے اس سے یقینا بہتری ائے گی جیسے اپ نے دیکھا کہ جو انٹرسٹ ریٹ تھا وہ نیچے آیا ا پٹرول ڈیزل نیچے ایا اور بہت ساری چیزیں بہتر ہونا شروع ہوئی ہیں تو ہم توقع کر سکتے ہیں کہ اس پیکج کے بعد چیزیں اور بہتر ہوں گی اور ملک اکانومی میں بھی سٹیبل ہوگا سیاسی طور پہ سٹیبل ہوگا لا اینڈ ارڈر بہتر ہوگا اور انشاءاللہ چیزیں بہتری کی طرف جائیں گی ہم نےمیرٹ سے ہٹ کے کوئی بات نہ پہلے کی ہے نہ کبھی کریں گے کیونکہ ان ساری چیزوں کی بینیفشری پیپلز پارٹی کبھی نہیں رہی اپ تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو یہ جو چیزیں اوپر نیچے ہوتی رہی ہیں ان کے بینیفشری کوئی اور رہے ہیں پیپلز پارٹی کبھی نہیں ہوئی

دوسری طرف غیر رسمی گفتگو کے دوران مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان پنجاب یونیورسٹی میں اپنا وی سی لگانا چاہتے ہیں جبکہ ہماری آج تک کی ہسٹری میں سب میرٹ پر ہیں میرے پاس ایم پی اے ایم این اے سفارشیں لاتے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کی نہیں سنی صبح نو سے رات 12 بجے تک کام کرتی ہوں

news

انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے،عمران خان

Published

on

سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر نے ان سے احتجاج ملتوی کرنے کی پیشکش کی تھی، تاکہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ عمران خان نے بتایا کہ ان کا مطالبہ تھا کہ انڈر ٹرائل افراد کی رہائی کی جائے تاکہ مذاکرات کی سنجیدگی ظاہر ہو سکے، لیکن حکومت نے اس مطالبے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
عمران خان نے کہا کہ مذاکرات چلتےرہے مگر یہ واضح ہو گیا کہ حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور صرف احتجاج ملتوی کرانا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی، اور حکومت کے پاس موقع تھا کہ وہ انہیں رہا کر دیتی، لیکن یہ ظاہر ہو گیا کہ حکومت معاملہ کو طول دینا چاہتی ہے اور اصل طاقت وہی ہے جو یہ سب کچھ کروا رہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اس سب کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ان پر مزید کیسز بنائے جا رہے ہیں، اور اس صورتحال کو “بنانا ریپبلک” کہا جا رہا ہے۔ عمران خان نے وکلا، ججز، مزدوروں اور سول سوسائٹی سے اپیل کی ہے کہ 24 نومبر کو احتجاج کے لیے باہر نکلیں۔عمران خان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی تھی، مگر اس کے باوجود حکومت نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کی رہائی نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا، اور 24 نومبر کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا بڑا احتجاج ہوگا کیونکہ وہ آزاد ممالک میں رہتے ہیں اور اگر حکومت بات چیت میں سنجیدہ ہے تو ان کے گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
عمران خان نے کہا کہ جیل میں رہتے ہوئے ان پر 60 کیسز درج کیے جا چکے ہیں، اور نواز شریف کے حوالے سے بھی سوال اٹھایا کہ انہوں نے کتنے شورٹی بانڈز جمع کروائے تھے اور بائیو میٹرک بھی ائیرپورٹ تک گئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو مذاکرات ہو رہے ہیں، ان میں سنجیدگی نہیں ہے، اور ان مذاکرات کا مقصد صرف وقت گزارنا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں تمام گرفتار افراد کی رہائی شامل ہے، اور جب تک ان لوگوں کو رہا نہیں کیا جاتا، مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام اہم کیسز میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود رہائی نہیں دی گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات میں سنجیدگی کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کبھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتیں۔

جاری رکھیں

news

عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمہ میں پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور، انسداد دہشت گردی عدالت

Published

on

عمران خان

راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کا 28 ستمبر کے احتجاج پر اکسانے کے مقدمے میں 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔ یہ فیصلہ اڈیالہ جیل میں سماعت کے دوران سنایا گیا، جہاں عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور حکومتی پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل پیش کیے۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر، ظہیر شاہ نے عدالت میں عمران خان کے 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی، اور ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کال پر، جس میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود، مظاہرین نے سرکاری املاک پر حملے کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 28 ستمبر کو ہونے والے احتجاج کی منصوبہ بندی اڈیالہ جیل میں کی گئی تھی اور وہیں سے اس احتجاج کے لیے کال دی گئی تھی۔
عدالت نے حکومتی پراسیکیوٹر کی درخواست پر عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کی 5 روزہ مدت منظور کر لی۔عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ڈیڑھ سال سے اڈیالہ جیل میں قید تنہائی میں ہیں، وہ جیل میں رہ کر کیسے اتنی بڑی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں؟ یہ مقدمہ سیاسی انتقامی کارروائی ہے اور درج متن مفروضوں پر مبنی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے پراسیکیوٹر کی جانب سے 15 دن کے ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عمران خان کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
انسداد دہشتگردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو 26 نومبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ عمران خان سے جیل کے اندر ہی تفتیش کی جائے۔
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی پر 28 ستمبر کو راولپنڈی میں احتجاج پر اکسانے کا کیس ہے جس میں توشہ خانہ ٹو سے ضمانت ملنے کے بعد گزشتہ روز ان کی گرفتاری ڈالی گئی تھی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~