Connect with us

news

حافظ نعیم الرحمن: فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت

Published

on

حافظ نعیم الرحمن

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں فلسطین پر اسرائیلی جارحیت، فلسطینیوں کی نسل کشی اور امریکی سرپرستی میں جاری مظالم سب سے بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔ جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک گیر اور عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف احتجاجی مہم کو مزید تیز کیا جائے گا۔ اسی سلسلے میں 4 اکتوبر کو لاہور اور 5 اکتوبر کو کراچی میں شاندار “غزہ ملین مارچ” منعقد کیے جائیں گے، جبکہ 7 اکتوبر کو ملک بھر میں عالمی احتجاجی دن منایا جائے گا، جس میں شہری ایک گھنٹے تک سڑکوں پر نکل کر غزہ کے عوام سے اظہار یکجہتی کریں گے۔

حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اصولی مؤقف ایک آزاد فلسطینی ریاست ہونا چاہیے، دو ریاستی حل نہ صرف بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مؤقف کی نفی ہے بلکہ قومی پالیسی سے بھی انحراف ہے۔ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ جماعتیں اسرائیل اور امریکہ کی کھل کر مذمت کیوں نہیں کرتیں؟ حالیہ واقعات میں اسرائیل نے قطر اور حماس کی مذاکراتی ٹیم پر حملہ امریکہ کی رضامندی سے کیا۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے امریکی صدر کو نوبل انعام دینے کی تجویز کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

سیاسی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو “اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعتیں” قرار دیا اور کہا کہ یہ جماعتیں عوام کو نورا کشتی کے ذریعے بیوقوف بنا رہی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ فارم 47 کی بنیاد پر جعلی ووٹ ڈال کر ان جماعتوں کو عوام پر مسلط کیا گیا ہے۔ کراچی کے وسائل لوٹے گئے ہیں، جبکہ شہر کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔

انہوں نے حالیہ سیلاب میں جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے حکومت کی زرعی پالیسیوں پر بھی سخت تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسانوں سے سستی گندم خرید کر مڈل مین کو فائدہ پہنچایا گیا جبکہ اصل کاشتکار اور عوام دونوں کو نقصان ہوا۔ انہوں نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے اس کا فارنزک آڈٹ کروانے کا مطالبہ کیا۔

حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا کہ 21، 22 اور 23 نومبر کو مینار پاکستان لاہور میں ایک عظیم الشان “اجتماع عام” منعقد ہوگا جو نظام کی تبدیلی کے لیے ایک نئی تحریک کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

کینیڈا میں پاکستانی ٹیکسٹائل کا چرچا: ATS شو 2025ء میں خریداروں کی بھرپور توجہ

Published

on

By

کینیڈا

کینیڈا کے شہر مسّی ساگا میں 29 ستمبر سے یکم اکتوبر 2025ء تک جاری رہنے والے “اپیرل ٹیکسٹائل سورسنگ (ATS) شو” میں پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت نے شاندار شرکت کی۔ اس بین الاقوامی تجارتی میلے میں پاکستان سمیت چین، بنگلا دیش، ویتنام اور کینیڈا کے نمائندوں نے حصہ لیا، جس نے اس نمائش کو عالمی سورسنگ اور صنعت سے جڑے ماہرین کے لیے ایک نمایاں پلیٹ فارم بنا دیا۔

پاکستانی نمائش کنندگان نے اعلیٰ معیار کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات پیش کیں، جن میں اسپورٹس ویئر، ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز اور حفاظتی ملبوسات شامل تھے۔ یہ نمائش پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں مہارت، پائیداری اور ہائی پرفارمنس مصنوعات کی ترقی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

شرکاء نے بتایا کہ اس سال کا رسپانس سابقہ برسوں کی نسبت خاصا بہتر رہا، اور متعدد خریداروں و صنعت کاروں سے مثبت تجارتی روابط قائم ہوئے۔ اس موقع پر شمالی امریکا میں ابھرتے ہوئے رجحانات، خاص طور پر ماحول دوست ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ سے متعلق قیمتی معلومات بھی حاصل کی گئیں، جو آئندہ تجارتی حکمتِ عملی کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پر سماعت کا آغاز

Published

on

By

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے ہیں۔ آٹھ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ دورانِ سماعت جسٹس امین نے واضح کیا کہ عدالت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرے گی اور جب تک آئینی ترمیم واپس نہیں لی جاتی، عدالت کو موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ چونکہ عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کو معطل نہیں کیا، اس لیے اسے فی الحال آئین کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ درخواست گزار وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے غیر معمولی انداز میں، رات کے وقت منظور کرائی گئی، اور سپریم کورٹ کے تمام ججز کو بینچ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی ساخت متاثر ہوئی ہے، اور ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔

عدالتی بینچ نے وکیل سے آئینی بینچ کے اختیارات پر دلائل طلب کیے اور یہ سوال اٹھایا کہ عدالت کس اختیار کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں ہے، اور اگر عام مقدمات میں فل کورٹ تشکیل دی جا سکتی ہے تو اس حساس آئینی معاملے میں کیوں نہیں؟

جاری رکھیں

Trending

Copyright © 2024 Sahafat Group of Publications . Powered by NTD.

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~