Connect with us

news

بلوچستان میں بس مسافروں کا قتل: حافظ نعیم الرحمان کی مذمت

Published

on

بلوچستان

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے بلوچستان کے علاقے ژوب میں دہشتگردوں کے ہاتھوں بس مسافروں کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بدترین دہشتگردی قرار دیا ہے۔ منصورہ سے جاری بیان میں حافظ نعیم نے کہا کہ یہ واقعہ نہ صرف انسانی ہمدردی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی خطرناک لہر کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی شاہراہ پر بسوں سے مسافروں کو شناخت کے بعد اتار کر قتل کرنا ایک گھناؤنی سازش ہے جس کا مقصد صوبائی و نسلی تعصبات کو ہوا دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ سیکیورٹی ادارے اور حکومت شہریوں کو تحفظ دینے میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں، اور خفیہ اداروں کو اپنی اصل ذمہ داریوں پر توجہ دینی چاہیے تاکہ دہشتگردی پر قابو پایا جا سکے۔ حافظ نعیم الرحمان نے واقعے میں شہید ہونے والوں کے لیے دعا کی اور ان کے لواحقین سے دلی ہمدردی و تعزیت کا اظہار کیا۔

ادھر واقعے کے بعد مقتول 9 مسافروں کی میتیں ڈیرہ غازی خان منتقل کر کے آبائی علاقوں کو روانہ کر دی گئی ہیں۔ یہ تمام افراد بلوچستان سے پنجاب واپس جا رہے تھے کہ ژوب کے علاقے ڈب سرہ ڈاکئی میں انہیں بسوں سے اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔ مقتولین میں لودھراں کے دو بھائی عثمان اور جابر شامل تھے جو والد کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے کوئٹہ سے نکلے تھے۔ ان کے بھائی صابر نے کہا کہ والد کی تدفین کی تیاری کر رہے تھے، مگر اب تین جنازے اٹھانے پڑ رہے ہیں، یہ کسی قیامت سے کم نہیں۔ دیگر مقتولین میں محمد عرفان (ڈی جی خان)، محمد آصف (مظفرگڑھ)، غلام سعید (خانیوال)، صابر (گوجرانوالہ)، محمد جنید (لاہور)، محمد بلال (اٹک) اور بلاول (گجرات) شامل تھے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے بھی واقعے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگردوں کو عبرتناک انجام تک پہنچایا جائے گا اور معصوم شہریوں کے خون کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ریاست دہشتگردی کے خلاف بھرپور اقدامات کرے گی۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

جسٹس اطہر من اللہ: پولیس اسٹیٹ کا تاثر خطرناک

Published

on

ج جسٹس اطہر من اللہ

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ نے پولیس کے غیر جانبدار کردار پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کا طاقتور طبقہ پولیس کو کنٹرول کر رہا ہے، جس کی وجہ سے پولیس اسٹیٹ کا تاثر جنم لے رہا ہے، جو کہ ایک انتہائی خطرناک علامت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ پولیس عوام کی خدمت کے لیے کام کرے، نہ کہ کسی مخصوص طبقے کے مفادات کی محافظ بنے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو قانون کے مطابق آزاد اور غیر جانبدار ہونا چاہیے، کیونکہ عوام کا پولیس پر اعتماد ہی یہ طے کرے گا کہ وہ ایک آئینی ریاست میں رہ رہے ہیں یا پولیس سٹیٹ میں۔

یہ ریمارکس جسٹس اطہر من اللہ نے قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیے، جس میں سیتا رام نامی ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا۔ یہ مقدمہ 18 اگست 2018ء کو پیش آنے والے چندر کمار کے قتل سے متعلق تھا، جس میں مدعی ڈاکٹر انیل کمار کی بروقت اطلاع کے باوجود پولیس نے دو روز بعد مقدمہ درج کیا، جسے عدالت نے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ایس ایچ او قربان علی نے تسلیم کیا کہ اطلاع پولیس ڈائری میں درج کی گئی تھی مگر مقدمہ دفعہ 154 کے تحت درج نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مقدمہ درج کرنے میں تاخیر ایک سنگین رجحان بن چکا ہے، جو نہ صرف انصاف کی نفی کرتا ہے بلکہ شواہد کے ضائع ہونے اور بے گناہوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم ہونے کا بھی سبب بنتا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ طرز عمل کمزور، غریب اور پسماندہ طبقے کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ فیصلے میں تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایت دی گئی ہے کہ قانون پر مؤثر عملدرآمد کو یقینی بنائیں، جبکہ پراسیکیوٹر جنرلز کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ شفافیت اور اعتماد کے فروغ کے لیے مؤثر ایس او پیز تشکیل دیں۔

جاری رکھیں

news

آسٹریا میں پاکستانی سفارتکار کروڑوں کا غبن کر کے فرار

Published

on

آسٹریا News Pakistan

آسٹریا میں پاکستان کے سفارتی مشن سے کروڑوں روپے کی مالی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے، جہاں ایک سفارتی افسر سرکاری فنڈز خردبرد کر کے اپنی اہلیہ سمیت فرار ہو گیا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2020 میں ویانا میں تعینات ایک اکاؤنٹنٹ نے جعلی دستخط اور دستاویزات استعمال کرتے ہوئے 4 لاکھ 42 ہزار یورو سے زائد (تقریباً 12 کروڑ 83 لاکھ روپے) اور 1 لاکھ 34 ہزار ڈالر سے زائد (تقریباً 3 کروڑ 74 لاکھ روپے) آسٹریا سفارتخانے کے اکاؤنٹس سے نکال کر اپنے اور اپنی اہلیہ کے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر لیے۔

رپورٹ کے مطابق ملزم اور اس کی بیوی اس فراڈ کے بعد کسی نامعلوم مقام پر فرار ہو گئے، اور تاحال رقم کی ایک پائی بھی واپس نہیں لی جا سکی۔ حیران کن طور پر وزارت خارجہ نے نہ صرف معاملے کی تفصیلی انکوائری رپورٹ آڈٹ ٹیم کو دینے سے انکار کیا، بلکہ اس سنگین واقعے میں شامل دیگر ذمہ داران کے خلاف بھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

آڈیٹ رپورٹ میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ مشن کے مالیاتی معاملات کی نگرانی کرنے والے ہیڈ آف مشن، ہیڈ آف چانسری اور بینک اکاؤنٹس کے شریک دستخط کنندگان کی غفلت کیوں نظر انداز کی گئی؟ ملزم کو 17 فروری 2020 کو برطرفی کا نوٹس بھیجا گیا اور غبن شدہ رقم کی واپسی کی ہدایت بھی کی گئی، مگر نومبر 2023 تک کوئی ریکوری نہ ہو سکی۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ فروری 2024 میں معاملہ دوبارہ رپورٹ ہونے کے باوجود وزارت خارجہ نے تحقیقات کا دائرہ نہ بڑھایا اور نہ ہی ذمہ دار افسران کے خلاف کوئی قابل ذکر کارروائی کی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~