news
پاکستان کا 15 سالہ زیرو کوپن اسلامک بانڈز کا تاریخی اجرا
حکومتِ پاکستان نے مالیاتی نظام میں ایک تاریخی پیش رفت کرتے ہوئے 15 سالہ زیرو کوپن اسلامک بانڈز کے اجرا سے 1.2 ٹریلین روپے سے زائد کی رقم کامیابی سے حاصل کرلی ہے۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے کی گئی سرکاری بانڈز کی اس بڑی نیلامی کو ملکی اور بین الاقوامی مالیاتی حلقوں میں بھرپور پذیرائی ملی، خاص طور پر 15 سالہ زیرو کوپن بانڈ کو جس کے ذریعے 47 ارب روپے جمع کیے گئے۔ اس بانڈ کی خاص بات یہ ہے کہ سرمایہ کاروں کو ہر سال منافع نہیں دیا جائے گا، بلکہ مکمل ادائیگی بانڈ کی میعاد ختم ہونے پر یعنی 15 سال بعد کی جائے گی۔
حکام کے مطابق، اس اقدام سے حکومت کو قلیل المدتی قرضوں کی واپسی کے دباؤ سے نجات ملے گی اور مالی منصوبہ بندی مزید مؤثر بنائی جا سکے گی۔ سرمایہ کاروں کی جانب سے مثبت ردعمل اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت اور حکومت کی اصلاحاتی پالیسیوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس نئی اسکیم کا مقصد قرضوں کے خطرات کو کم کرنا، قرضوں کی واپسی کی مدت کو بڑھانا اور اسلامی مالیاتی مصنوعات کو فروغ دینا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ موجودہ نیلامی کے بعد مقامی قرضوں کی اوسط واپسی مدت 2.7 سال سے بڑھ کر 3.75 سال ہو چکی ہے، جس سے حکومت کو فوری قرضوں کی ادائیگی کے بوجھ میں خاطر خواہ کمی ملے گی۔ اس کے علاوہ، صرف بینک ہی نہیں بلکہ پنشن فنڈز اور انشورنس کمپنیاں بھی اب سرکاری بانڈز میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، جس سے مالیاتی خطرات مختلف ذرائع میں تقسیم ہو رہے ہیں اور سرمایہ کاروں کی بنیاد وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔
وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اس تاریخی کامیابی کو پاکستان کے مالیاتی نظام کی مضبوطی کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اسمارٹ اور طویل المدتی قرض لینے کے طریقے متعارف کرا رہی ہے، تاکہ سرمایہ کاروں کو متبادل مواقع فراہم کیے جا سکیں اور عوامی قرضے کو ذمہ داری سے منظم کیا جا سکے۔
وزارت خزانہ عام شہریوں کے لیے بھی اسلامی بانڈز میں سرمایہ کاری کو آسان بنانے پر کام کر رہی ہے تاکہ بچت کے رجحان کو فروغ دیا جا سکے اور مالیاتی شمولیت ممکن ہو۔ عالمی غیر یقینی صورتحال کے باوجود، اس کامیاب نیلامی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کی معیشت درست سمت میں گامزن ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کر رہی ہے
news
وزیراعظم کا چینی ذخیرہ اندوزوں پر کریک ڈاؤن
وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں چینی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے بعد ذخیرہ اندوزوں اور سٹے بازوں کے خلاف بلاتفریق سخت کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت ایف آئی اے، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک اور دیگر متعلقہ اداروں کو مکمل اختیارات دے دیے گئے ہیں تاکہ وہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف موثر ایکشن لے سکیں۔
ذرائع کے مطابق آئندہ دنوں میں ملک گیر سطح پر چھاپے، گرفتاریاں اور دیگر قانونی اقدامات متوقع ہیں، جن کا مقصد مصنوعی قلت اور قیمتوں میں کارٹلائزیشن کو روکنا ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہوگی۔
جناح میڈیکل کمپلیکس اینڈ ریسرچ سینٹر: شفافیت اور بین الاقوامی توجہ
وزیراعظم نے اپنی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جناح میڈیکل کمپلیکس اینڈ ریسرچ سینٹر کی تعمیر کے تمام مراحل میں 100 فیصد شفافیت یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ اس منصوبے کے لیے 600 کنال اراضی حاصل کرنے کا عمل جاری ہے اور بین الاقوامی ماہرین و کنسلٹنٹس کی تعیناتی کے لیے عالمی اشتہار دیا جا چکا ہے۔
اب تک منصوبے سے متعلق دو کانفرنسز منعقد ہو چکی ہیں جن میں 10 ممالک کی 33 عالمی کمپنیوں نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ چین، ترکیہ، جنوبی کوریا، اور سنگاپور میں منعقدہ روڈ شوز میں عالمی کمپنیوں نے اس منصوبے میں بھرپور دلچسپی ظاہر کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے جدید ترین طبی تحقیق اور علاج کا مرکز بنے گا۔
یہ دونوں اقدامات پاکستان میں معاشی شفافیت، قانون کی عملداری، اور عالمی سرمایہ کاری کے فروغ کی جانب حکومت کے عزم کا واضح اظہار ہیں۔
news
سپریم کورٹ کا فیصلہ: ججز ٹرانسفر برقرار، دو ججز کا اختلافی نوٹ سامنے
سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے جس کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے تین ججز کے تبادلے کو آئینی اور درست قرار دیا گیا۔ 5 رکنی آئینی بینچ کے تین ججز نے ٹرانسفر کو جائز قرار دیا جبکہ دو ججز نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر نے پڑھ کر سنایا، جب کہ جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس صلاح الدین پنہور نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق کیا۔
اختلافی نوٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد کی جانب سے پیش کیا گیا، جس میں ٹرانسفر کو غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا گیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ججز کا تبادلہ آئین پاکستان کے تحت درست نہیں اور اس میں صدر مملکت کی جانب سے آئینی حدود کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تبادلہ کے عمل میں نہ مدت مقرر کی گئی اور نہ ہی اس کی وجوہات بیان کی گئیں۔ دونوں ججز کے مطابق یہ تبادلہ غیر شفاف اور عجلت میں کیا گیا۔
انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ اختلافی نوٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ججز کے تبادلے کے پیچھے خفیہ اداروں، خاص طور پر آئی ایس آئی، کی مداخلت کا کردار ہے۔ اختلافی رائے میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی جیسے ادارے کو ججز کی تقرری یا تبادلے میں کوئی کردار حاصل نہیں اور یہ آئینی طور پر عدلیہ کے دائرہ کار میں مداخلت کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں یہ معاملہ بھی صدر مملکت کو واپس بھیج دیا کہ وہ فیصلہ کریں کہ ججز کا تبادلہ عارضی ہے یا مستقل، اور سنیارٹی کا تعین کس بنیاد پر ہوگا۔ اس وقت تک جسٹس سرفراز ڈوگر قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
یہ فیصلہ اور اختلافی نوٹ عدلیہ، آئینی عملداری، اور خفیہ اداروں کی حدود سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، جن پر مستقبل میں بحث متوقع ہے۔
- news2 months ago
رانا ثناءاللہ کا بلاول کے بیان پر ردعمل: سندھ کے پانی کا ایک قطرہ بھی استعمال نہیں کریں گے
- news2 months ago
وزیر دفاع خواجہ آصف: پاکستان کے وجود کو خطرہ ہوا تو ایٹمی ہتھیار استعمال کریں گے
- news2 months ago
سی سی آئی کا دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ ختم کرنے کا فیصلہ
- news2 months ago
اداکارہ علیزہ شاہ نے سوشل میڈیا سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا