news
اسلام آباد میں امن و امان خراب کرنے والے افراد کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا، محسن نقوی
وزیر داخلہ محسن نقوی کا اسلام آباد میں قانون کی حکمرانی اور امن کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کو سخت ہدایات دینا ایک اہم اقدام ہے۔ ان کا یہ بیان کہ اسلام آباد میں امن و امان کو خراب کرنے والے افراد کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت امن قائم رکھنے کے لیے سنجیدہ ہے، خاص طور پر جب بیلاروس کا وفد اور صدر بیلاروس کا دورہ متوقع ہے۔
پولیس لائنز اسلام آباد میں محسن نقوی کی موجودگی میں کی جانے والی تقریر میں آئی جی اسلام آباد پولیس اور دیگر اعلیٰ افسران کا بھی تذکرہ کیا گیا، جو اس بات کا غماز ہے کہ وزیر داخلہ اس معاملے میں پولیس کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ اس قسم کی سخت پالیسیز کا مقصد نہ صرف اسلام آباد بلکہ پورے ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
بیلاروس کے صدر کے دورے کے پیش نظر، اسلام آباد کی سیکیورٹی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پولیس کی تیاری اور ہم آہنگی ضروری ہے تاکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو اور ملک کی بین الاقوامی سطح پر عزت و وقار میں اضافہ ہو سکے۔وزیر داخلہ محسن نقوی کا پولیس فورس کے لیے حفاظتی تدابیر اور احتیاطی اقدامات پر زور دینا ان کی ذمہ داریوں کے تئیں سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ “ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمیشہ ساتھ کھڑے رہیں گے” پولیس اہلکاروں کے حوصلے کو بلند کرنے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک مضبوط پیغام ہے۔ وزیر داخلہ نے واضح کیا کہ اسلام آباد میں امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جائے گی اور حکومت اس حوالے سے بھرپور اقدامات کرے گی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کی کال دینا ایک اور اہم پہلو ہے جس پر حکومتی حکام کی نظر ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کا یہ دعویٰ کہ وہ مطالبات کی منظوری تک واپس نہیں آئیں گے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیاسی احتجاج کا ماحول خاصا گرم ہو سکتا ہے۔
وزیر داخلہ کی طرف سے اس صورت حال کے پیش نظر پولیس کو سخت ہدایات دینا اور امن و امان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے کا عہد، حکومت کی جانب سے سیاسی اور عوامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کی ایک اہم کوشش ہے۔ پولیس فورس کی تیاری اور مؤثر حکمت عملی سے ان کا مقصد احتجاج کے دوران کسی بھی قسم کی خرابی سے بچنا اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔
news
ندیم افضل چن کا انتباہ: گندم کی قیمت پیزے کے برابر، بحران کا خدشہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ندیم افضل چن نے گندم کے ممکنہ بحران پر خبردار کرتے ہوئے حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ آج کل سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے کہ ایک من گندم کی قیمت ایک پیزے کے برابر ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث کسان کی گندم کوئی خریدنے کو تیار نہیں، گندم کی قیمت دو ہزار روپے تک گر چکی ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو کسان گندم لگانا چھوڑ دے گا، اور اگر کسان گندم نہ لگائے تو پھر ملک کو دو سے تین کھرب روپے مالیت کی گندم بیرونِ ملک سے منگوانا پڑے گی۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ مزمل اسلم نے بھی گندم کی قیمتوں، ملکی شرح نمو اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی فی من قیمت میں 100 روپے کی کمی سے ملک بھر کے کسانوں کو مجموعی طور پر 75 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، جس میں صرف پنجاب کے کسانوں کا حصہ 50 ارب روپے ہے۔
مزمل اسلم نے مزید کہا کہ موجودہ نرخوں کے تحت کسانوں کو فی من 1200 روپے کا نقصان ہو رہا ہے، جس کے باعث پنجاب کے کسانوں کو 600 ارب جبکہ باقی ملک کے کسانوں کو 300 ارب روپے کا مجموعی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ نقصان تقریباً 3.2 ارب ڈالر کے برابر ہے، جو اگر مقامی کسانوں کو نہ ملا تو گندم درآمد کر کے یہی رقم غیر ملکی کسانوں کو ادا کرنا پڑے گی۔
انہوں نے ملکی معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ رواں مالی سال میں ملکی شرح نمو 2.5 سے 3.0 فیصد تک رہنے کا امکان ہے جو کہ مقرر کردہ 4 فیصد ہدف سے کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے آٹھ ماہ میں صنعتی پیداوار میں 1.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ مارچ میں صنعتی پیداوار میں منفی 5.9 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ملکی زراعت اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے حالانکہ کسی قدرتی آفت کا سامنا بھی نہیں ہے۔
مزمل اسلم اور ندیم افضل چن دونوں نے حکومت سے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کسانوں کو ریلیف دیا جا سکے، اور ملک کو خوراک کے بحران سے بچایا جا سکے۔
news
وفاقی حکومت کا مؤقف: ججز کا تبادلہ آئینی، نیا حلف ضروری نہیں
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں ججز سنیارٹی کیس سے متعلق اپنا تحریری جواب جمع کروا دیا ہے، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ججز کی تعیناتی اور تبادلوں کے خلاف دائر تمام درخواستیں خارج کی جائیں۔ وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں مؤقف اپنایا ہے کہ ججز کے تبادلے آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت کیے گئے ہیں اور انہیں نئی تعیناتی تصور نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا تبادلے کے بعد ججز کے لیے دوبارہ حلف اٹھانا ضروری نہیں ہے۔
حکومت نے وضاحت دی ہے کہ آئین میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ ججز کا تبادلہ عارضی ہوگا۔ ججز کے تبادلے سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی بلکہ اس سے شفافیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج کے تبادلے کے لیے صدر کا کردار محدود ہوتا ہے جبکہ اصل اختیار چیف جسٹس پاکستان، دونوں متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور متعلقہ جج کی رضامندی سے مشروط ہوتا ہے۔
وفاقی حکومت کے مطابق وزارتِ قانون نے 28 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلے کی سمری بھیجی تھی۔ جوڈیشل کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دو ججز تعینات کیے جبکہ تین آسامیاں خالی چھوڑ دی گئیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ تمام ہائی کورٹس کا حلف ایک جیسا ہوتا ہے، اس لیے تبادلہ ہو کر آنے والے ججز کو نیا حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں۔
جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ جج کے تبادلے سے پہلے تمام متعلقہ فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اور یہ مکمل طور پر آئینی عمل ہے۔ وفاقی حکومت نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سمیت تمام درخواست گزاروں کی درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دی جائیں۔
- سیاست8 years ago
نواز شریف منتخب ہوکر دگنی خدمت کریں گے، شہباز کا بلاول کو جواب
- انٹرٹینمنٹ8 years ago
راحت فتح علی خان کی اہلیہ ان کی پروموشن کے معاملات دیکھیں گی
- انٹرٹینمنٹ8 years ago
شعیب ملک اور ثنا جاوید کی شادی سے متعلق سوال پر بشریٰ انصاری بھڑک اٹھیں
- کھیل8 years ago
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے ساتھی کھلاڑی شعیب ملک کی نئی شادی پر ان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔