Connect with us

ٹیکنالوجی

نہ ٹریک نہ ڈرائیور، چین کی سڑکوں پر خود کار ریل بس چلنے لگی

چین کے شہر ژوژائو میں ایک ایسی ٹرین متعارف کرائی گئی ہے جو سڑک پر سفر کرتی ہے۔ اس ٹرین کو چلانے کے لیے کسی ٹریک کی ضرورت ہے نہ ڈرائیور کی

Published

on

Photo: Shutterstock

چین کے شہر ژوژائو میں ایک ایسی ٹرین متعارف کرائی گئی ہے جو سڑک پر سفر کرتی ہے۔ اس ٹرین کو چلانے کے لیے کسی ٹریک کی ضرورت ہے نہ ڈرائیور کی۔

ڈی ریل بس کے نام سے پیش کی جانے والی یہ انوکھی چیز چینی کمپنی سی آر آر سی کی تیار کردہ ہے۔ یہ خود کار ریل بس ہے۔ اسے ٹرین کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں سفر کرنے والے خود کو ٹرین میں سفر کرتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔سی آرڑ سی نے اپنی اس پروڈکٹ کے ذریعے بس، ٹرین اور ٹرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا ہے۔ سفر کے ان تینوں ذرائع کو انقلابی انداز سے منظر عام پر لایا گیا ہے۔دی ریل بس کا ڈیزائن جون 2023 میں عوام کے سامنے رکھ اگیا تھا۔ پانچ ماہ سے بھی کم مدت میں سی آر آر سی نے 30 اکتوبر 2023 کو ژوژائو میں چار کلومیٹر کی سڑک پر آزمائشی سفر شروع کردیا۔ چار اسٹیشن رکھے گئے تھے۔اس منصوبے کا بنیاد مقصد زیر زمین ریلوے سسٹم سے نجات پانا ہے کیونکہ اس پر لاگت بہت زیادہ آرہی ہے۔ دی ریل بس پر لاگت زیر زمین ریلوے پر آنے والی لاگت کا ایک چوتھائی ہے۔بجلی سے چلنے والی ریل بس کو ایک سفر کے بعد 25 کلومٹر کے ٹریک پر سفر کے لیے ری چارج ہونے میں صرف دس منٹ لگتے ہیں۔ ریل بس زیادہ سے زیادہ 43 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

میکسیکو میں دنیا کا پہلا بچہ اے آئی روبوٹ کے ذریعے پیدا

Published

on

اے آئی روبوٹ

میکسیکو میں سائنس اور طب کے میدان میں ایک حیرت انگیز پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں پہلی بار ایک ایسے بچے کی پیدائش ہوئی ہے جسے مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے لیس روبوٹ کے ذریعے ماں کے جسم میں منتقل کیا گیا۔ یہ دنیا کا پہلا واقعہ ہے جہاں مکمل آئی وی ایف (IVF) عمل ایک خودکار اے آئی روبوٹ کے ذریعے مکمل کیا گیا ہو۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق جس خاتون نے اس بچے کو جنم دیا، ان کی عمر 40 سال ہے اور وہ کافی عرصے سے ماں بننے کی خواہش رکھتی تھیں، تاہم کئی کوششوں کے باوجود کامیاب نہ ہو سکی تھیں۔ بعدازاں انھیں ایک تجرباتی پروگرام کے لیے چُنا گیا جس میں ایک خودکار اے آئی روبوٹ استعمال کیا گیا جو مکمل طور پر جدید مصنوعی ذہانت پر مبنی ہے۔

اس تجربے میں انسانی ماہرین کی جگہ ایک روبوٹ نے آئی وی ایف کا پورا عمل انجام دیا۔ یہ روبوٹ نہ صرف فرٹیلائزیشن کا عمل خود سرانجام دیتا ہے بلکہ سب سے صحت مند اور موزوں خلیے بھی خود ہی منتخب کرتا ہے، اس طرح انسانی غلطیوں کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔

یہ نیا طریقہ کار میکسیکو کے شہر گواڈیلاہارا میں آزمایا گیا جہاں پانچ خلیوں پر تجربہ کیا گیا، جن میں سے دو کامیاب رہے۔ کامیاب خلیات میں سے ایک کو خاتون کے جسم میں منتقل کیا گیا، جس سے ایک صحت مند بچے کی پیدائش ممکن ہوئی۔

یہ بچہ اس اعتبار سے دنیا کا پہلا انسان ہے جو ایک اے آئی روبوٹ کی مدد سے اس دنیا میں آیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ٹیکنالوجی ابھی مہنگی ضرور ہے، لیکن وقت کے ساتھ اس کی لاگت میں کمی ممکن ہے، اور یہ طریقہ کار ان بے اولاد جوڑوں کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے جو روایتی طریقوں سے والدین نہیں بن پا رہے۔

یہ پیش رفت جدید سائنس اور مصنوعی ذہانت کے اشتراک کا ایک حیرت انگیز مظہر ہے، جو طبی دنیا میں انقلابی تبدیلیوں کی نوید دے رہا ہے۔

جاری رکھیں

news

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی خود مرمت کرنے والی اور لچکدار لیتھیم بیٹری ایجاد

Published

on

lithium battery

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے سائنسدانوں نے ایک انقلابی لیتھیم بیٹری تیار کر لی ہے جو نہ صرف کھنچنے اور مڑنے کے قابل ہے بلکہ خود کو مرمت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ یہ جدید بیٹری خاص طور پر نرم روبوٹس (Soft Robots) اور پہننے کے قابل الیکٹرانک آلات (Wearable Devices) کے لیے ایک بڑی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ بیٹری زہریلے مادوں سے پاک ہے اور اسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ چاقو سے کٹنے، پنکچر ہونے یا موڑے جانے کے باوجود بھی اپنا کام جاری رکھتی ہے۔ اس منفرد بیٹری کی تیاری میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے علاوہ جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور ہانگ کانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین بھی شامل ہیں۔

تحقیقی جریدے “سائنس ایڈوانسز” میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس بیٹری نے 500 مرتبہ چارج اور ڈسچارج ہونے کے بعد بھی اپنی کارکردگی برقرار رکھی۔ بیٹری کی جیلی جیسی ساخت اسے نہایت لچکدار بناتی ہے۔ اس میں استعمال کیا گیا خاص پولیمر پانی کے مالیکیولز اور لیتھیم آئنز کے ساتھ مضبوطی سے جُڑتا ہے، جس سے نہ صرف پانی بیٹری کے اندر محفوظ رہتا ہے بلکہ آئنز کا خطرناک اخراج بھی روکا جا سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس بیٹری میں استعمال ہونے والا الیکٹرولائٹ مکمل طور پر ماحول دوست ہے اور اس کی وولٹیج کارکردگی 3.11 وولٹ تک مستحکم رہی۔ سائنسی تجربے کے دوران اس بیٹری کو ایک سرکٹ بورڈ سے جوڑ کر ایل ای ڈی لائٹس جلائی گئیں، جو ایک ماہ سے زائد عرصے تک بغیر کسی مسئلے کے چلتی رہیں۔

یہ نئی بیٹری نہ صرف سافٹ روبوٹکس بلکہ پہننے کے قابل ٹیکنالوجی میں ایک اہم سنگِ میل سمجھی جا رہی ہے کیونکہ یہ معمولی نقصان کے بعد بھی خود کو بحال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور مستحکم توانائی فراہم کرتی ہے۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~