news
خواجہ آصف، سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ اسرائیلی حملے کا ردعمل نہیں
وزیر دفاع پاکستان خواجہ آصف نے معروف صحافی مہدی حسن کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ حالیہ دفاعی معاہدہ قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں نہیں کیا گیا بلکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان پچھلے پانچ سے چھ دہائیوں پر محیط دفاعی تعلقات کو باضابطہ معاہدے کی شکل دینے کا عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی پاکستانی فوجی اہلکار سعودی عرب میں موجود ہیں اور ماضی میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہاں تقریباً چار سے پانچ ہزار پاکستانی فوجی تعینات تھے۔
ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ وہ معاہدے کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے، لیکن یہ واضح ہے کہ اس معاہدے کا مقصد پہلے سے موجود شراکت داری کو ایک باقاعدہ اسٹرکچر میں تبدیل کرنا تھا، نہ کہ کوئی نیا یا ہنگامی نوعیت کا معاہدہ کرنا۔ یہ دفاعی تعاون پہلے صرف مخصوص لین دین یا ضرورت کے تحت ہوتا تھا، اب اسے ادارہ جاتی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے متعلق سوال پر وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان تحمل اور عالمی اصولوں کی پاسداری کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے بعد دنیا کی کوئی جوہری طاقت ان ہتھیاروں کے استعمال کی حامی نہیں رہی، اور پاکستان بھی اسی پالیسی پر کاربند ہے۔ خواجہ آصف نے اس بات کا امکان ظاہر کیا کہ موجودہ جیوپولیٹیکل حالات میں پاکستان امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات میں کردار ادا کر سکتا ہے، لیکن فی الحال امریکا کی طرف سے پاکستان پر کوئی دباؤ یا مطالبہ نہیں ہے، اور اگر کوئی مطالبہ آیا بھی تو پاکستان اپنے قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا۔