Connect with us

news

گوگل نے پاکستان میں جدید AI ٹولز Veo 3 اور Flow متعارف کرا دیے

Published

on

Veo 3 گوگل

گوگل نے پاکستان سمیت دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں اپنے جدید ترین مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ویڈیو جنریشن ٹولز Veo 3 اور Flow متعارف کرا دیے ہیں۔ یہ ٹولز فی الحال گوگل اے آئی پرو اور الٹرا سبسکرائبرز کے لیے دستیاب ہیں اور صارفین کو ایک نئی تخلیقی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ Veo 3 کی خاص بات یہ ہے کہ یہ صارفین کو صرف ایک تصویر، منظر اور آڈیو کی تفصیلات فراہم کرنے پر آٹھ سیکنڈ کا واضح اور آواز کے ساتھ متحرک ویڈیو کلپ تیار کر کے دیتا ہے۔

اس سال کے آغاز میں متعارف کرائے گئے Veo 3 پر مبنی یہ فیچر پہلے ہی دنیا بھر میں بے حد مقبول ہو چکا ہے، جہاں صرف سات ہفتوں میں اس کے ذریعے 4 کروڑ سے زائد ویڈیوز تخلیق کی جا چکی ہیں۔ ان ویڈیوز میں پرانی یادوں کو نئے انداز میں پیش کرنے سے لے کر ایسمار جیسی تخلیقی جہتوں میں تجربات شامل ہیں۔ پاکستان میں ڈیجیٹل کہانی کاروں اور کنٹنٹ کری ایٹرز کی ابھرتی ہوئی کمیونٹی کے لیے یہ ٹیکنالوجی ایک زبردست موقع ہے جس کے ذریعے وہ اپنی تخلیقات کو نئی زندگی دے سکتے ہیں۔

صارفین کسی بھی تصویر کو ویڈیو میں تبدیل کرنے کے لیے پرومپٹ باکس میں ‘ویڈیوز’ کا انتخاب کر کے اپنی تصویر اپلوڈ کرتے ہیں، منظر اور آڈیو سے متعلق ہدایات درج کرتے ہیں، جس کے بعد گوگل کا جیمینی ماڈل خودکار طور پر ایک مکمل ویڈیو تیار کر دیتا ہے جسے ڈاؤن لوڈ یا شیئر بھی کیا جا سکتا ہے۔

گوگل کا دوسرا ٹول “فلو” فلم سازوں کے لیے خاص طور پر تیار کیا گیا ہے۔ اس میں صارفین نہ صرف ویڈیوز میں آواز شامل کر سکتے ہیں بلکہ ساؤنڈ ایفیکٹس اور بیک گراؤنڈ آڈیو بھی شامل کرنے کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔ اگرچہ فی الحال فلو کا آڈیو جنریشن فیچر ٹیسٹنگ مرحلے میں ہے، مگر اس سے حاصل ہونے والے نتائج امید افزا ہیں۔

اس کے علاوہ “فریمز ٹو ویڈیو” فیچر کی مدد سے ذاتی تصاویر کو شاندار ویڈیو کلپس میں بدلا جا سکتا ہے، اور یہ سہولت Veo 3 Fast پر بھی دستیاب ہے، جس سے صارفین اپنے کریڈٹس کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔

گوگل کی جانب سے تیار کردہ تمام ویڈیوز پر ایک واضح واٹرمارک اور ایک غیر مرئی ڈیجیٹل مارکر SynthID شامل ہوتا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ویڈیو مصنوعی ذہانت سے تخلیق کی گئی ہے۔ گوگل ان ٹولز کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے نہ صرف سخت پالیسیز پر عمل کر رہا ہے بلکہ صارفین سے رائے لے کر سسٹمز میں بہتری بھی لا رہا ہے، تاکہ یہ جدید سہولت محفوظ اور مؤثر طریقے سے استعمال کی جا سکے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

جسٹس اطہر من اللہ: پولیس اسٹیٹ کا تاثر خطرناک

Published

on

ج جسٹس اطہر من اللہ

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ نے پولیس کے غیر جانبدار کردار پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کا طاقتور طبقہ پولیس کو کنٹرول کر رہا ہے، جس کی وجہ سے پولیس اسٹیٹ کا تاثر جنم لے رہا ہے، جو کہ ایک انتہائی خطرناک علامت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ پولیس عوام کی خدمت کے لیے کام کرے، نہ کہ کسی مخصوص طبقے کے مفادات کی محافظ بنے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو قانون کے مطابق آزاد اور غیر جانبدار ہونا چاہیے، کیونکہ عوام کا پولیس پر اعتماد ہی یہ طے کرے گا کہ وہ ایک آئینی ریاست میں رہ رہے ہیں یا پولیس سٹیٹ میں۔

یہ ریمارکس جسٹس اطہر من اللہ نے قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیے، جس میں سیتا رام نامی ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا۔ یہ مقدمہ 18 اگست 2018ء کو پیش آنے والے چندر کمار کے قتل سے متعلق تھا، جس میں مدعی ڈاکٹر انیل کمار کی بروقت اطلاع کے باوجود پولیس نے دو روز بعد مقدمہ درج کیا، جسے عدالت نے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ایس ایچ او قربان علی نے تسلیم کیا کہ اطلاع پولیس ڈائری میں درج کی گئی تھی مگر مقدمہ دفعہ 154 کے تحت درج نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مقدمہ درج کرنے میں تاخیر ایک سنگین رجحان بن چکا ہے، جو نہ صرف انصاف کی نفی کرتا ہے بلکہ شواہد کے ضائع ہونے اور بے گناہوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم ہونے کا بھی سبب بنتا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ طرز عمل کمزور، غریب اور پسماندہ طبقے کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ فیصلے میں تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایت دی گئی ہے کہ قانون پر مؤثر عملدرآمد کو یقینی بنائیں، جبکہ پراسیکیوٹر جنرلز کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ شفافیت اور اعتماد کے فروغ کے لیے مؤثر ایس او پیز تشکیل دیں۔

جاری رکھیں

news

آسٹریا میں پاکستانی سفارتکار کروڑوں کا غبن کر کے فرار

Published

on

آسٹریا News Pakistan

آسٹریا میں پاکستان کے سفارتی مشن سے کروڑوں روپے کی مالی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے، جہاں ایک سفارتی افسر سرکاری فنڈز خردبرد کر کے اپنی اہلیہ سمیت فرار ہو گیا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2020 میں ویانا میں تعینات ایک اکاؤنٹنٹ نے جعلی دستخط اور دستاویزات استعمال کرتے ہوئے 4 لاکھ 42 ہزار یورو سے زائد (تقریباً 12 کروڑ 83 لاکھ روپے) اور 1 لاکھ 34 ہزار ڈالر سے زائد (تقریباً 3 کروڑ 74 لاکھ روپے) آسٹریا سفارتخانے کے اکاؤنٹس سے نکال کر اپنے اور اپنی اہلیہ کے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر لیے۔

رپورٹ کے مطابق ملزم اور اس کی بیوی اس فراڈ کے بعد کسی نامعلوم مقام پر فرار ہو گئے، اور تاحال رقم کی ایک پائی بھی واپس نہیں لی جا سکی۔ حیران کن طور پر وزارت خارجہ نے نہ صرف معاملے کی تفصیلی انکوائری رپورٹ آڈٹ ٹیم کو دینے سے انکار کیا، بلکہ اس سنگین واقعے میں شامل دیگر ذمہ داران کے خلاف بھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

آڈیٹ رپورٹ میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ مشن کے مالیاتی معاملات کی نگرانی کرنے والے ہیڈ آف مشن، ہیڈ آف چانسری اور بینک اکاؤنٹس کے شریک دستخط کنندگان کی غفلت کیوں نظر انداز کی گئی؟ ملزم کو 17 فروری 2020 کو برطرفی کا نوٹس بھیجا گیا اور غبن شدہ رقم کی واپسی کی ہدایت بھی کی گئی، مگر نومبر 2023 تک کوئی ریکوری نہ ہو سکی۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ فروری 2024 میں معاملہ دوبارہ رپورٹ ہونے کے باوجود وزارت خارجہ نے تحقیقات کا دائرہ نہ بڑھایا اور نہ ہی ذمہ دار افسران کے خلاف کوئی قابل ذکر کارروائی کی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~