Connect with us

news

سٹاک ایکسچینج میں کچھ دباؤ کے بعد انڈیکس میں 1100 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ

Published

on

پاکستان اسٹاک ایکسچینج

پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں ابتدائی طور پر ہونے والی فروخت کے بعد خریداری کا رجحان بحال ہوگیا، پیر کو انٹرا ڈے ٹریڈنگ کے دوران بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس میں 1100 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ دیکھا گیا۔

قبل اس کےکاروباری سیشن کے دوران بینکنگ ودیگر سیکٹرز کی طرف سے فروخت کی وجہ سے بینچ مارک انڈیکس میں ایک ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی دیکھنے میں آئی تھی۔

البتہ مارکیٹ منفی رجحان کو دور کرنے میں کامیاب ہو گئ۔ دوپہر 12 بجے تک بینچ مارک انڈیکس 1,109.75 پوائنٹس یا 1.02 فیصد اضافے سے 110,163.70 پوائنٹس پر پہنچ گیا۔

آٹوموبائل اسمبلرز، سیمنٹ، فرٹیلائزر، تیل و گیس کی تلاش کرنے والی کمپنیوں اور او ایم سیز سمیت اہم شعبوں میں خریداری بھی دیکھی گئی۔ البتہ اس دوران، بینکنگ سیکٹر فروخت کے دباؤ میں رہا۔

اینگرو، او جی ڈی سی، پی پی ایل، پی ایس او اور حبکو سمیت انڈیکس ہیوی اسٹاک میں بھی مثبت رجحان رہا۔

ماہرین نے اس سے پہلے ہونے والی مندی کی وجہ حکومت کی طرف سے بینکنگ سیکٹر میں ایڈو انسز ٹو ڈپازٹ ریشو (اے ڈی آر) کے مسئلے کے حل کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے کو قرار دیا تھا۔

عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) کی ہیڈ آف ریسرچ ثنا توفیق نے میڈیا ذرائع کو بتایا کہ کمیٹی کی طرف سے تجویز کردہ متبادل طریقہ کار کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاروں کے جذبات پر بھی اثر انداز ہورہی ہے۔

ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کے مطابق کمیٹی بینکنگ سیکٹر کے اے ڈی آر سے متعلق مالی اقدامات کے موجودہ قانونی فریم ورک کا بھی جائزہ لے گی اور یہ سرکاری سیکورٹیز میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے بینک منافع پر ٹیکس لگانے کے لئے متبادل مالی اسکیموں پر بھی غور کرے گی۔

ثنا توفیق نے یہ بھی کہا کہ اس کے علاوہ، منافع خوری بھی مارکیٹ میں گراوٹ اور مندی کا باعث بن رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی کا رجحان بھی دیکھا گیا۔ بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس ہفتہ وار بنیادوں پر 7,696.63 پوائنٹس یا 7.6 فیصد اضافے کے ساتھ 109,053.95 پوائنٹس پر ختم ہوا۔

news

بیرسٹر گوہر علی خان کا پارلیمنٹ سے مذاکرات کا مطالبہ

Published

on

بیرسٹر گوہر

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے راستہ فراہم کرے تاکہ 9 مئی کی دھول بیٹھ سکے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا حساب لینے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہے اور اس مقصد کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے، جسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر پارلیمنٹ نے مذاکرات کا راستہ نہ دیا تو پی ٹی آئی پھر سے سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو گی اور انہیں بار بار سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہ پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے تاکہ مسائل کا حل نکالا جا سکے۔

بیرسٹر گوہر علی خان نے 9 مئی کے احتجاج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں کئی ممالک میں لوگوں نے ایوانوں میں داخل ہو کر احتجاج کیا لیکن وہاں گولی نہیں چلائی گئی، جبکہ پاکستان میں آئینی احتجاج کے دوران گولی چلائی گئی۔ وزیر دفاع کی جانب سے گولی چلانے کا الزام علی امین گنڈاپور کے گارڈز پر لگانے پر گوہر علی خان نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ حکومت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ گولی چلائی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ نفاذ شریعت محمدی کے دوران گولی چلنے سے آٹھ افراد جان سے گئے تھے، لیکن حکومت نے پرچے کاٹ کر معافی مانگی اور معافی مل گئی۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت شہید ہونے والوں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتی تھی؟

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ انہیں پشتون کارڈ استعمال کرنے کا طعنہ دیا جاتا ہے، مگر ان کا موقف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں شامل لوگ غیر مسلح تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے کسی بھی ویڈیو میں اسلحہ استعمال نہیں کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو مقبولیت کے لیے جلسے جلوس نکالنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ 8 فروری کو ان کی مقبولیت ثابت ہو چکی ہے۔

جاری رکھیں

news

وزیر دفاع خواجہ آصف کا عمران خان اور جنرل فیض حمید کی پارٹنرشپ پر بیان

Published

on

ایک شخص کی حواریوں کے ہاتھوں ملک کو یرغمال نہیں بننے دیں گے"خواجہ آصف"

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان اور جنرل فیض حمید کی پارٹنرشپ 2018ء سے پہلے کی تھی اور یہ پارٹنرشپ 9 مئی کے بعد بھی جاری رہی۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے والوں میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سرفہرست تھے اور یہ بات شہادتوں سے سامنے آئے گی کہ 2018 میں کس طرح دھاندلی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور اقتدار میں بہت سے سویلین کا ملٹری ٹرائل کیا گیا اور اس بارے میں قانون فیصلہ کرے گا۔ وزیر دفاع نے الزام عائد کیا کہ ڈی چوک میں علی امین گنڈاپور کے گارڈز نے اپنے ہی افراد کو مارا اور اس کا ملبہ پولیس اور رینجرز پر ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گنڈا پور کی گاڑیوں پر ڈنڈے برسائے گئے اور پھر فائرنگ کی گئی، جس کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ صحافیوں نے جو کوریج کی وہ بھی ثبوت فراہم کرتی ہے۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ اگرچہ بعض لوگ 12 افراد کی شہادت کی بات کرتے ہیں، لیکن وہ ان 5 افراد کی شہادت کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو رینجرز اور پولیس کے افسران تھے اور دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوئے۔ ان کے مطابق، ان شہداء کا خون بھی قیمتی ہے اور ان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

وزیر دفاع نے واضح کیا کہ جب قانون حرکت میں آتا ہے تو اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے اور جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام ریاستی ادارے اور افسران قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں تاکہ پاکستان کی سلامتی میں رینجرز، پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کی قربانیاں محفوظ رہیں۔

خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کے دور میں کئی افراد کے ملٹری ٹرائل ہوئے تھے، جو اب مختلف وجوہات کی بنا پر نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی قانونی طریقے سے ہوا اس کا جواز تھا، لیکن اگر کوئی فرد قانون سے باہر جا کر کام کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ حکومت کا مقصد ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے اور اس میں کوئی شخص یا ادارہ استثنیٰ نہیں ہے۔ قانون کی بالادستی کے لئے ہر فرد اور ادارے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ملک میں امن قائم رہے اور ہر فرد کو انصاف مل سکے۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~