head lines

پنجاب لوکل گورنمنٹ بل | اپوزیشن نے عدالت کا رخ کر لیا

Published

on

پنجاب لوکل گورنمنٹ بل پاکستان کی سیاست میں ایک نئی بحث چھیڑ چکا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ پنجاب لوکل گورنمنٹ بل کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے۔ اس درخواست میں متنازع شقوں پر حکم امتناع کی استدعا بھی شامل ہوگی۔ اپوزیشن کے مطابق یہ بل بلدیاتی خودمختاری اور سیاسی نظام کے بنیادی ڈھانچے پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

پنجاب لوکل گورنمنٹ بل پر پی ٹی آئی کا مؤقف

پی ٹی آئی رکن پنجاب اسمبلی اعجاز شفیع نے بتایا کہ درخواست پیر کے روز عدالت میں جمع ہوگی۔ اپوزیشن نے اپنا تفصیلی اعتراضات کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ یہ اعتراضات صدر، وزیراعظم، گورنر پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب سمیت اعلیٰ حکام کو بھجوا دیے گئے ہیں۔
اسی موضوع پر ہماری سائٹ پر یہ خبر بھی موجود ہے: مزید پڑھیں: بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے خدشات

متنازع شقیں کون سی ہیں؟

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ بل کے کئی نکات آئین پاکستان کے آرٹیکلز 17، 32 اور 140 اے سے متصادم ہیں۔ ان کے مطابق غیر جماعتی ملٹی ممبر یونین کونسل کا ماڈل سیاسی جماعتوں کے کردار کو کمزور کرتا ہے۔
بین الاقوامی رپورٹس بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مقامی حکومتوں کی مضبوطی جمہوری نظام کو بہتر بناتی ہے۔

بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات میں کمی؟

اپوزیشن کے مطابق پنجاب لوکل گورنمنٹ بل انتظامی افسران کو زیادہ اختیارات دیتا ہے۔ اس اقدام سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں ہوں گے۔ اسی حوالے سے ہماری سائٹ پر ایک اور تحریر بھی موجود ہے: مزید پڑھیں: مقامی حکومت اور اختیارات کی منتقلی

مالی خودمختاری بھی ایک بڑا مسئلہ قرار دی گئی ہے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ فنڈز کا مکمل اختیار عوامی نمائندوں کے پاس ہو، نہ کہ مرکز کے پاس۔ وہ غیر معینہ مدت کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے کے اختیار کو بھی آئین کے خلاف قرار دیتے ہیں۔

انتخابی شفافیت کا مطالبہ

اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ یونین کونسل چیئرمن کا براہ راست انتخاب بحال کیا جائے۔ بلدیاتی اداروں کی مدت پانچ سال آئینی طور پر مقرر کی جائے۔ ایک واضح انتخابی شیڈول بھی جاری کیا جائے تاکہ غیر یقینی صورتحال ختم ہو۔

آخری طور پر، پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ بل ایک فریم ورک ہونا چاہیے، نہ کہ اختیارات سلب کرنے کا ذریعہ۔ معاملہ اب عدالت میں ہے اور فیصلہ آنے تک بل پر سیاسی تنازع مزید بڑھے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending

Exit mobile version