head lines
سپریم کورٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کی سماعت
اسلام آباد: چھبیسویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، جس کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ “مجھے جھوٹا کیا جا رہا ہے، 24 ججز کی میٹنگ ہوئی تھی اور کچھ ججز نے اپنی رائے دی تھی جبکہ کچھ نے نہیں دی تھی۔”
یہ سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے آغاز میں جسٹس امین الدین نے کہا کہ آج کی کارروائی انٹرنیٹ مسائل کے باعث لائیو نشر نہیں کی جائے گی۔
🧑⚖️ وکیل عابد زبیری کے دلائل اور ججز کے مکالمے
وکیل عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کسی جج پر اعتراض نہیں کر سکتی، فیصلہ کرنا جج کا اختیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس مقدمے کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ آپ فل کورٹ کی بات نہ کریں بلکہ وہ ججز بتائیں جو 26ویں آئینی ترمیم سے قبل سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ “اگر یہ ترمیم نہ ہوتی تو جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس نہ بنتے۔”
🏛️ سپریم کورٹ رولز 2025 پر بحث
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نئے سپریم کورٹ رولز 2025 کے مطابق بینچز کمیٹی بنائے گی۔
جسٹس مندوخیل نے جواب دیا کہ رولز میں کہیں نہیں لکھا کہ بینچ چیف جسٹس بنائے گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ رولز بناتے وقت تمام ججز کی مشاورت نہیں ہوئی تھی، میرا نوٹ بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔
جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ 24 ججز نے میٹنگ میں شرکت کی تھی، سب کو اپنی رائے دینے کا کہا گیا تھا، “جب تک یہ معاملہ واضح نہیں ہوتا، کیس آگے نہیں چلے گا۔”
🧩 عدلیہ کی آزادی اور اپیل کے حق پر گفتگو
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن چاہے تو اپیل کے حق کے لیے اضافی ججز نامزد کر سکتا ہے، ورنہ یہ حق ختم بھی ہو سکتا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ “اگر 16 رکنی بینچ بھی بنا تو اپیل کا حق نہیں ہو گا۔”
وکیل زبیری نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا ہے کہ اجتماعی دانش پر مبنی فیصلے پر اپیل ضروری نہیں۔
🧾 فل کورٹ تشکیل دینے کا اختیار کس کے پاس؟
جسٹس امین الدین نے سوال کیا کہ کیا چیف جسٹس فل کورٹ بنا سکتے ہیں؟
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس اب بھی فل کورٹ بنانے کا اختیار ہے اور اس کے لیے ماضی کی مثالیں موجود ہیں۔
سماعت کے اختتام پر 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی