news
مظفرآباد میں کشیدہ حالات، انٹرنیٹ بند، عوامی ایکشن کمیٹی کا ریاستی اداروں پر قتل کا الزام
مظفرآباد — آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سمیت مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران گولیاں چلنے سے حالات شدید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطابق، ریاستی ادارے مظفرآباد میں پرامن شہریوں پر تشدد اور فائرنگ میں ملوث ہیں، جس کے نتیجے میں ایک کارکن جاں بحق اور درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ “ریاست ہمیں قتل کر رہی ہے، مظفرآباد کو لال چوک سرینگر بنایا جا رہا ہے، لیکن ہم پرامن جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔”
مظفرآباد سمیت آزاد کشمیر کے دیگر شہروں اور دیہات میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، مظاہرے، ریلیاں اور جلسے جلوس منعقد کیے گئے، جن میں بینرز، پلے کارڈز اور نعرے بازی کے ذریعے اپنے مطالبات کو اجاگر کیا گیا۔ مظاہرین کا بنیادی مطالبہ 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر عمل درآمد ہے، جس میں اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ اور کشمیر اسمبلی میں مہاجرین کے لیے مختص 12 نشستوں کا خاتمہ شامل ہے۔
ادھر احتجاج کے دوسرے روز بھی حکومت نے سخت اقدامات کیے۔ موبائل انٹرنیٹ، فون اور لینڈ لائن سروسز مکمل طور پر بند کر دی گئیں، جس کے باعث نہ صرف شہریوں کے ریاست سے باہر روابط منقطع ہو گئے بلکہ بیرون ملک مقیم کشمیری اپنے عزیزوں سے رابطہ نہ کر سکے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کی ترجمان زیب النسا کے مطابق، انٹرنیٹ کی بندش وفاقی وزارت داخلہ کی ہدایت پر کی گئی۔
مظفرآباد میں حالات اس وقت مزید پیچیدہ ہوئے جب حکومتی مذاکراتی ٹیم اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان طویل مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے۔ اسلام آباد سے وفاقی وزراء امیر مقام اور طارق فضل چوہدری 25 ستمبر کو مظفرآباد پہنچے تھے، لیکن مطالبات پر اتفاق نہ ہو سکا۔
ادھر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے احتجاجی صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی سے ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ ن لیگ کشمیر کے رہنما مشتاق منہاس کے مطابق، وزیراعظم نے کہا ہے کہ 98 فیصد مطالبات پر اتفاق ہو چکا ہے، صرف دو نکات پر ڈیڈ لاک ہے، اور وہ خود دو دن میں پاکستان واپس آ کر مظاہرین سے ملاقات کریں گے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے سینئر رکن شوکت نواز میر نے اس بیان پر ردعمل میں کہا کہ اگر وزیراعظم واقعی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انٹرنیٹ سروس بحال کی جائے تاکہ ہم اُن کا پیغام سن سکیں اور آئندہ لائحہ عمل طے کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو ایک “بند گلی” میں دھکیل دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ موجودہ احتجاجی تحریک کا مرکز معاشی و سیاسی مطالبات ہیں، جن میں مہنگائی، توانائی بحران، بے روزگاری، اشرافیہ کی مراعات اور مہاجرین کی مخصوص نشستوں جیسے ایشوز شامل ہیں۔ تاہم حکومتی رویہ، بالخصوص انٹرنیٹ بندش اور فائرنگ کے واقعات نے اس تحریک کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے، جس کے باعث مقامی و بین الاقوامی سطح پر بھی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔