news
بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل، حکومت اور سوسائٹی کا ردعمل
بلوچستان میں غیرت کے نام پر ایک دلخراش قتل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے جس میں ایک خاتون اور مرد کو سرخ گاڑی سے اتار کر پہاڑی علاقے میں گولیاں مار کر قتل کیا جاتا ہے۔ خاتون کی عمر تقریباً 30 سال بتائی جا رہی ہے۔ ویڈیو میں بولی جانے والی زبان براہوی ہے تاہم متاثرہ خاندانوں نے تاحال انتظامیہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ریاست نے اس واقعے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر دہشت گردی کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق، ریاست اس کیس میں خود مدعی بنے گی اور نادرا کی مدد سے ویڈیو میں موجود افراد کی شناخت کا عمل جاری ہے، جبکہ ایک ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے، تاہم مقتولین کی لاشیں تاحال برآمد نہیں ہو سکیں۔ سینیئر سیکیورٹی افسر عبدالجبار بلوچ کے مطابق قتل ایک دور افتادہ پہاڑی علاقے میں کیا گیا اور گاڑیوں کا ڈیٹا ایکسائز کو فراہم کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی نظام کی وجہ سے اکثر غیرت کے نام پر قتل کے متاثرین انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں، لیکن اس واقعے میں ملوث افراد کو جلد گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کارکن سمیرا بلوچ نے کہا کہ جب تک غیرت کے نام پر قتل کو معاشرتی روایت سمجھا جاتا رہے گا، پسند کی شادی کرنے والے جوڑے خطرے میں رہیں گے۔ انہوں نے ریاستی اداروں کی جانب سے مؤثر قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا۔ یونیورسل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے عہدیدار عبدالقیوم خان نے کہا کہ پاکستان کا قانون کسی کو اپنی بہن، بیٹی یا بیوی کو مرضی سے شادی کرنے پر قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ان کے مطابق 2016 کے ترمیم شدہ قانون کے تحت اگر مقتول کے ورثاء معاف بھی کر دیں تب بھی ریاست کی طرف سے سزا دی جا سکتی ہے۔ قیوم خان نے ناقص تفتیش، قبائلی دباؤ اور پراسیکیوشن کی کمزوری کو مجرموں کی سزا سے بچنے کی بڑی وجوہات قرار دیا اور کہا کہ نظام انصاف میں بہتری ناگزیر ہے تاکہ ایسے واقعات کا مستقل سدباب کیا جا سکے۔