Connect with us

news

ایف بی آر اسکینڈل: اسمگل شدہ گاڑیوں کو نیلامی

Published

on

ایف بی آر

اسلام آباد سے موصولہ اطلاعات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے کسٹمز آکشن نظام میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور جعلسازی کا انکشاف ہوا ہے، جس میں اسمگل شدہ گاڑیوں کو نیلامی کے جعلی عمل کے ذریعے قانونی حیثیت دی جا رہی تھی۔ اس سنگین اسکینڈل میں ملوث دو کسٹمز افسران کو فوری طور پر معطل کر کے ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کر دیے گئے ہیں، جبکہ 13 مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔

ایف بی آر کے ایک سینئر افسر کے مطابق یہ کارروائیاں چیئرمین راشد محمود لنگڑیال اور ممبر کسٹمز کی ہدایات پر شروع کی گئی ہیں۔ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک بھر میں جعلی یوزر آئی ڈیز کے ذریعے کم از کم 103 اسمگل شدہ گاڑیوں کو کسٹمز سسٹم میں شامل کر کے نیلامی کے نام پر قانونی رجسٹریشن دی گئی۔ ان گاڑیوں کی نیلامی جعلی کاغذات اور جعلی سرکاری ریکارڈ کے ذریعے کی گئی، جس میں ممکنہ طور پر دیگر سرکاری ادارے بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔

ایف بی آر نے اس اسکینڈل کی سنگینی کے پیش نظر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سے باضابطہ طور پر مجرمانہ تحقیقات کی درخواست کر دی ہے، اور ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے قیام کا بھی مطالبہ کیا ہے جس میں آئی بی، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کے نمائندے شامل ہوں گے۔ اس ٹیم کا مقصد اس منظم اور پیچیدہ نیٹ ورک کو مکمل طور پر بے نقاب کرنا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس نیٹ ورک نے صرف نیلامی کے جعلی عمل تک محدود نہیں بلکہ دیگر سرکاری دستاویزات میں بھی جعلسازی کی، جس کی وجہ سے تحقیقات میں مزید بڑی گرفتاریاں اور سنسنی خیز انکشافات کی توقع کی جا رہی ہے۔ ایف بی آر نے واضح کیا ہے کہ اگر کسی بھی سرکاری افسر یا اہلکار کے خلاف شواہد ملے تو اس کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی۔ ساتھ ہی عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ ایسی کسی بھی مشتبہ سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر دیں تاکہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

جسٹس اطہر من اللہ: پولیس اسٹیٹ کا تاثر خطرناک

Published

on

ج جسٹس اطہر من اللہ

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ نے پولیس کے غیر جانبدار کردار پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کا طاقتور طبقہ پولیس کو کنٹرول کر رہا ہے، جس کی وجہ سے پولیس اسٹیٹ کا تاثر جنم لے رہا ہے، جو کہ ایک انتہائی خطرناک علامت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ پولیس عوام کی خدمت کے لیے کام کرے، نہ کہ کسی مخصوص طبقے کے مفادات کی محافظ بنے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو قانون کے مطابق آزاد اور غیر جانبدار ہونا چاہیے، کیونکہ عوام کا پولیس پر اعتماد ہی یہ طے کرے گا کہ وہ ایک آئینی ریاست میں رہ رہے ہیں یا پولیس سٹیٹ میں۔

یہ ریمارکس جسٹس اطہر من اللہ نے قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دیے، جس میں سیتا رام نامی ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا۔ یہ مقدمہ 18 اگست 2018ء کو پیش آنے والے چندر کمار کے قتل سے متعلق تھا، جس میں مدعی ڈاکٹر انیل کمار کی بروقت اطلاع کے باوجود پولیس نے دو روز بعد مقدمہ درج کیا، جسے عدالت نے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ ایس ایچ او قربان علی نے تسلیم کیا کہ اطلاع پولیس ڈائری میں درج کی گئی تھی مگر مقدمہ دفعہ 154 کے تحت درج نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مقدمہ درج کرنے میں تاخیر ایک سنگین رجحان بن چکا ہے، جو نہ صرف انصاف کی نفی کرتا ہے بلکہ شواہد کے ضائع ہونے اور بے گناہوں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم ہونے کا بھی سبب بنتا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ طرز عمل کمزور، غریب اور پسماندہ طبقے کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ فیصلے میں تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایت دی گئی ہے کہ قانون پر مؤثر عملدرآمد کو یقینی بنائیں، جبکہ پراسیکیوٹر جنرلز کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ شفافیت اور اعتماد کے فروغ کے لیے مؤثر ایس او پیز تشکیل دیں۔

جاری رکھیں

news

آسٹریا میں پاکستانی سفارتکار کروڑوں کا غبن کر کے فرار

Published

on

آسٹریا News Pakistan

آسٹریا میں پاکستان کے سفارتی مشن سے کروڑوں روپے کی مالی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے، جہاں ایک سفارتی افسر سرکاری فنڈز خردبرد کر کے اپنی اہلیہ سمیت فرار ہو گیا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2020 میں ویانا میں تعینات ایک اکاؤنٹنٹ نے جعلی دستخط اور دستاویزات استعمال کرتے ہوئے 4 لاکھ 42 ہزار یورو سے زائد (تقریباً 12 کروڑ 83 لاکھ روپے) اور 1 لاکھ 34 ہزار ڈالر سے زائد (تقریباً 3 کروڑ 74 لاکھ روپے) آسٹریا سفارتخانے کے اکاؤنٹس سے نکال کر اپنے اور اپنی اہلیہ کے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر لیے۔

رپورٹ کے مطابق ملزم اور اس کی بیوی اس فراڈ کے بعد کسی نامعلوم مقام پر فرار ہو گئے، اور تاحال رقم کی ایک پائی بھی واپس نہیں لی جا سکی۔ حیران کن طور پر وزارت خارجہ نے نہ صرف معاملے کی تفصیلی انکوائری رپورٹ آڈٹ ٹیم کو دینے سے انکار کیا، بلکہ اس سنگین واقعے میں شامل دیگر ذمہ داران کے خلاف بھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

آڈیٹ رپورٹ میں یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ مشن کے مالیاتی معاملات کی نگرانی کرنے والے ہیڈ آف مشن، ہیڈ آف چانسری اور بینک اکاؤنٹس کے شریک دستخط کنندگان کی غفلت کیوں نظر انداز کی گئی؟ ملزم کو 17 فروری 2020 کو برطرفی کا نوٹس بھیجا گیا اور غبن شدہ رقم کی واپسی کی ہدایت بھی کی گئی، مگر نومبر 2023 تک کوئی ریکوری نہ ہو سکی۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ فروری 2024 میں معاملہ دوبارہ رپورٹ ہونے کے باوجود وزارت خارجہ نے تحقیقات کا دائرہ نہ بڑھایا اور نہ ہی ذمہ دار افسران کے خلاف کوئی قابل ذکر کارروائی کی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~