news
عمران خان کی ڈیل کی خبروں کی تردید، ڈرون حملوں اور نظامِ انصاف پر شدید تنقید
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی ڈیل نہیں ہوئی، اور نہ ہی وہ ماضی میں اپنے لیے کچھ مانگتے رہے ہیں، نہ اب مانگیں گے۔ اپنے بیان میں عمران خان نے حالیہ خیبر پختونخواہ میں ہونے والے ڈرون حملوں پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ معصوم شہریوں کی شہادت پر وہ شدید رنجیدہ ہیں اور ان حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں سے دہشتگردی ختم نہیں ہوتی بلکہ مزید پھیلتی ہے، اس لیے خیبرپختونخوا حکومت فوری طور پر وفاقی حکومت سے احتجاج ریکارڈ کروائے اور ان حملوں کو رکوانے کی کوشش کرے۔
عمران خان نے طنزیہ انداز میں جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنائے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوتا وہ خود کو بادشاہ کہلواتے کیونکہ ملک میں اس وقت جنگل کا قانون نافذ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ڈیل کی افواہیں بے بنیاد ہیں اور اس حوالے سے نہ کوئی بات چیت ہوئی ہے اور نہ ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ خود اسٹیبلشمنٹ کو دعوت دے رہے ہیں کہ اگر پاکستان کے وسیع تر مفاد میں بات چیت کرنی ہے تو کریں، کیونکہ اس وقت ملک بیرونی خطرات، بڑھتی دہشتگردی اور معاشی بدحالی سے دوچار ہے، اور ہمیں ایک قوم بن کر ان چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔ خاص طور پر جس طرح پاکستان کی فضائیہ نے مودی کے جارحانہ عزائم کو روکا، اس کے بعد ممکن ہے بھارت کوئی اور حماقت کرے، جس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔
عمران خان نے پاکستان میں انصاف کے دوہرے معیار پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہاں قانون صرف کمزور پر لاگو ہوتا ہے، طاقتور کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت دو ستونوں، یعنی قانون کی حکمرانی اور اخلاقی اقدار، پر قائم ہوتی ہے، اور آج ان دونوں ستونوں کو زمین بوس کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری کی بہن کے خلاف پانچ اپارٹمنٹس کے کیس موجود ہیں، شہباز شریف پر 22 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے، لیکن اس کے باوجود وہ وزیراعظم بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے تین سالوں میں ملک کے آئینی و اخلاقی ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ توشہ خانہ ٹو کیس کا مضحکہ خیز ٹرائل دوبارہ چلا کر انصاف کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ جیل کی عدالتیں بھی کرنل کی مرضی سے چلتی ہیں، ان کے وکلاء، بہنوں اور بچوں تک کو ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔ انہیں کتابیں، ذاتی معالج، حتیٰ کہ عدالتی احکامات کے مطابق دی جانے والی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے، جو عدلیہ اور قانون کی مسلسل توہین ہے۔