news

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت، نو مئی کی تفصیلات پر سوالات

Published

on

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران اہم ریمارکس سامنے آئے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم آئینی بینچ نے سماعت کی، جس میں بینچ نے واضح کیا کہ اگر نو مئی کے واقعات کی تفصیلات میں گئے تو کئی پیچیدہ سوالات کھڑے ہو جائیں گے، جن کا جواب دینا شاید ممکن نہ ہو۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سپریم کورٹ میں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے دلائل تین نکات پر مرکوز رکھیں گے: نو مئی کے واقعات، 21 جولائی کا عدالتی فیصلہ، اور زیرِ سماعت اپیل۔ انہوں نے بتایا کہ نو مئی 2023 کو ملک بھر میں 39 واقعات پیش آئے جن میں پنجاب میں 23، خیبرپختونخوا میں 8، سندھ میں 7 اور بلوچستان میں ایک واقعہ شامل تھا۔ جی ایچ کیو، لاہور کا کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس)، میانوالی ایئربیس اور آئی ایس آئی دفاتر بھی حملوں کا نشانہ بنے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ تمام واقعات اتفاقیہ نہیں تھے، بلکہ ایک منظم ردعمل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس روز لاہور پر بیرونی جارحیت ہوتی تو اس کا کوئی مؤثر جواب نہیں دیا جا سکتا تھا کیونکہ شام 5:40 سے رات 9 بجے تک پوری کور غیر فعال ہو چکی تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ یہ سوال زیرِ غور ہی نہیں کہ جرم ہوا یا نہیں، اس لیے اپیل کے نکات پر بات کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق اگر جرم ہوا ہو تو محکمانہ کارروائی کے ساتھ فوجداری کارروائی بھی ہونی چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ نو مئی کے واقعات نہ روکنے پر محکمانہ کارروائی کی گئی، تاہم فوجداری جرم نہ ہونے کی وجہ سے اس نوعیت کی کارروائی نہیں کی گئی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ “آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں، نو مئی پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل دونوں متاثر ہو سکتے ہیں، بہتر ہے کہ ان تفصیلات میں نہ جائیں۔”

ایک اور اہم نکتہ جسٹس مسرت ہلالی کی جانب سے اٹھایا گیا، جنہوں نے پوچھا کہ کیا جناح ہاؤس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا؟ اگر اندر سے کھولا گیا تو یہ ملی بھگت کا معاملہ ہوگا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ تفصیل بعد میں فراہم کریں گے۔

عدالت میں یہ بھی بتایا گیا کہ کور کمانڈر لاہور کو بغیر پنشن کے ریٹائر کیا گیا جبکہ 14 دیگر افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ عدالت نے دریافت کیا کہ آیا کور کمانڈر لاہور بطور گواہ پیش ہوئے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ ٹرائل کورٹ کی اپیلوں کے دوران واضح ہوگا۔

سماعت کے اختتام پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اب تک 86 افراد نے فوجی عدالتوں سے ملنے والی سزاؤں کے خلاف اپیلیں دائر کی ہیں اور باقیوں کو بھی اپیل کے لیے وقت دیا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending

Exit mobile version