news
عمران خان: فارم 47 والے مودی کو جواب نہیں دے سکتے، بھارت کی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیں گے
اڈیالہ جیل میں وکلاء سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور بانی تحریک انصاف عمران خان نے بھارت کی جانب سے پہلگام واقعے کے تناظر میں پاکستان پر لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ “یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور انسانی جانوں کے ضیاع پر دلی دکھ ہے۔ ہم متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کرتے ہیں، لیکن بھارت کو ایک بار پھر بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام تراشی کا پرانا حربہ نہیں اپنانا چاہیے۔”
عمران خان نے کہا کہ پلوامہ حملے کے وقت بھی بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام لگایا، جبکہ ہماری حکومت نے مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ “جیسا میں نے 2019 میں کہا تھا، مودی سرکار ایک بار پھر وہی پرانا فالس فلیگ آپریشن دہرا رہی ہے تاکہ سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔”
انہوں نے کہا کہ “پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور امن کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ اگر بھارت نے کسی قسم کی مہم جوئی کی تو ہم 2019 کی طرح قوم کی حمایت سے بھرپور جواب دیں گے۔”
عمران خان نے مزید کہا کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت ان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون رہی ہے، اور آر ایس ایس کے نظریاتی ایجنڈے کو جنوبی ایشیا کے لیے ایک خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کی اور کہا کہ اس اقدام نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو مزید تقویت دی ہے۔
سابق وزیر اعظم نے پاکستان میں موجود حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “جعلی فارم 47 کے ذریعے مسلط کی گئی حکومت ملک کو تقسیم کر چکی ہے، اور اس کی داخلی ناکامیوں نے بیرونی خطرات سے نمٹنے کی قومی صلاحیت کو کمزور کر دیا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ “مودی کی جارحیت نے پوری پاکستانی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر دیا ہے، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ موجودہ حکمران بھارت کے خلاف کوئی مؤقف اختیار نہیں کریں گے کیونکہ ان کے ذاتی مفادات بھارت سے وابستہ ہیں۔”
عمران خان نے خاص طور پر نواز شریف اور آصف زرداری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ “یہ لوگ مودی کے خلاف کوئی بیان نہیں دیں گے کیونکہ ان کی غیر قانونی دولت اور کاروباری مفادات بھارت و دیگر ممالک میں ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ اگر وہ بھارت کے خلاف بولے تو ان کے آف شور اثاثے منجمد ہو سکتے ہیں۔”
انہوں نے زور دیا کہ “قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اور ریاست کو سیاسی انتقام اور اندرونی تقسیم سے باز آنا چاہیے تاکہ ہم بطور ایک متحد قوم بیرونی خطرات کا مؤثر طور پر سامنا کر سکیں۔”