Connect with us

news

خواتین پر تشدد: اقوام متحدہ کی تحقیق کے اہم انکشافات

Published

on

اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کی تقریبا 73 کروڑ خواتین اپنے شوہروں یا دیگر افراد کے ہاتھوں جسمانی ذہنی یا جنسی تشدد کا شکار ہو ئی ہیں
اس حوالے سے 15 سال سے زیادہ عمر کی خواتین اور لڑکیوں کا حصہ 30 فیصد ہے
یہ اعداد و شمار اقوام متحدہ کے ادارہ یو این ویمن کی طرف سے جاری کردہ ہیں جو کہ دنیا کہ تقریبا 161 ممالک سے حاصل کیے گئے ہیں
اس تحقیق کی روشنی میں 2022 کے دوران تقریبا 48 ہزار800 لڑکیاں یا خواتین اپنے شوہروں ساتھی افراد یا خاندان کے کسی اور فرد کے ہاتھوں قتل ہوئیں بانسبت قتل ہونے والے مردوں کے مقابلے میں جو کہ صرف 12 فیصد ہی اپنے کسی قریبی رشتہ دار کے ذریعے قتل ہوئے یو این او کی طرف سے اس عمل کو “خاتون کشی” کا نام دیا گیا ہے
خواتین پر روا رکھا جانے والا یہ تشدد پاکستان اور پدر شاہی سوچ اور نظام کی مضبوطی کا ایک منطقی نتیجہ ہے
تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ دنیا بھر میں خواتین پر ہونے والے تشدد میں اجنبی افراد کی بجائے ان کی اپنے شوہر یا ساتھی مرد ہی ملوث ہیں
یو این وومن کا کہنا ہے کہ جنس کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنا پر کیے جانے والا تعصب براہ راست خواتین پر ہونے والے تشدد کا باعث بنتا ہے
اس تعصب میں رنگ نسل مذہب ذات پرستی وغیرہ شامل ہیں اور اس طرح خواتین پر ہونے والے تشدد میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے
یو این کی اس رپورٹ کے مطابق انیس سال کی عمر تک پہنچنے تک دنیا میں ہر چار میں سے ایک لڑکی جنسی جسمانی یا ذہنی تشدد کا شکار ہو چکی ہوتی ہے نیز ایسی خواتین جو کسی جسمانی یا ذہنی بیماری میں مبتلا ہوں صحت مند خواتین کے مقابلے میں زیادہ تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جنوری 2023 میں شائع ایک میڈیکل رپورٹ نے اس بات کی باقاعدہ تصدیق کی ہے
یورپی یونین کی طرف سے کی جانے والی ایک ریسرچ اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ کسی معذوری میں مبتلا یا کم آمدن کا شکار خواتین میں استحصال کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں
تعصب کے علاوہ دنیا میں درپیش بڑے بحران جیسے موسمیاتی تبدیلیاں صحت کے بحران اور انسانی حقوق کی پامالی وغیرہ بھی جنس کی بنیاد پر ہونے والے افراد تشدد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں
ایک محتاط اندازے کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی نقل مکانی میں 80 فیصد حصہ خواتین کا ہوتا ہے اور دیگر ایسی ہی تباہیوں کے نتیجے میں تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں
2005 میں آنے والے سمندری طوفان کترینہ کے نتیجے میں جنسی زیادتیوں میں چھ گنا اضافہ دیکھا گیا نیوزی لینڈ کے علاقے کینٹر گری میں زلزلے کے بعد گھریلو تشدد میں ہونے والا اضافہ 53 فیصد تھا ایتھوپیا میں قحط سالی کے باعث لڑکیوں کو مویشیوں کے عوض بیچنے کا عمل بھی اختیار کیا گیا اسی طرح وہ ممالک جہاں انسانی حقوق کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے وہاں جنسی تشدد دوگنا دیکھنے میں آیا ہے
جولائی 2024 میں افغانستان میں ہونے والے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دو فیصد مردوں کے مقابلے میں 64 فیصد خواتین اکیلے گھر سے باہر جاتے ہوئے گھبراتی اور خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں نیز جنگ زدہ علاقوں میں کم عمر کی شادی میں بھی چار فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے اسی طرح جنسی استحصال میں سمگلنگ کا شکار ہونے والوں میں 90 فیصد تعداد خواتین کی ہے

news

فیفا ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی سعودی عرب کو مل گئی

Published

on

فیفا ورلڈ کپ 2034

دنیا کے سب سے مقبول کھیل فٹبال کے عالمی ٹورنامنٹ فیفا ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی سعودی عرب کو مل گئی ہے۔ فیفا کے صدر جیانی انفینٹینو نے زیورخ میں غیرمعمولی جنرل اسمبلی اجلاس میں باضابطہ اعلان کیا۔

ورلڈ کپ 2030 کے میزبان ممالک:
2030 کے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی اسپین، پرتگال اور مراکش مشترکہ طور پر کریں گے۔

سعودی عرب کی میزبانی:
2034 کے ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے سعودی عرب واحد امیدوار تھا، جسے متفقہ طور پر یہ اعزاز دیا گیا۔ اس موقع پر سعودی عوام نے ریاض کے مختلف مقامات پر بڑی اسکرینوں پر یہ اعلان دیکھا اور جشن منایا۔

فیفا صدر کے ریمارکس:
فیفا کے صدر نے کہا کہ فٹبال دنیا کو جوڑنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ ورلڈ کپ 2034 شاندار ہوگا۔

وزیراعظم پاکستان کی مبارکباد:
وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو فٹبال ورلڈ کپ 2034 کی میزبانی حاصل کرنے پر تہہ دل سے مبارکباد پیش کی۔ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ یہ تاریخی کامیابی سعودی عرب کے وژن 2030 کے عزم اور عالمی اسپورٹس میں ان کے بڑھتے اثرورسوخ کو ظاہر کرتی ہے۔

تاریخی پہلو:
سعودی عرب، قطر کے بعد مشرق وسطیٰ کا دوسرا ملک بن گیا ہے جو فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کرے گا۔ یہ سعودی عرب کے لیے نہ صرف کھیلوں بلکہ عالمی سیاست اور اسپورٹس ڈپلومیسی میں بھی ایک اہم سنگ میل ہے۔

جاری رکھیں

news

سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کے خلاف حکومتی اپیلوں کی سماعت

Published

on

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کے ذریعے سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے سویلینز کے بنیادی حقوق پر اہم سوالات اٹھائے۔

جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نے سماعت کے دوران واضح کیا کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق کرنے سے ان کے آئینی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔

وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کی مخصوص دفعات سویلینز پر ان خاص حالات میں لاگو ہوتی ہیں، جہاں قانون اجازت دیتا ہے۔

عدالت کے اہم ریمارکس:

جسٹس جمال مندوخیل: جو شخص آرمی میں نہیں ہے، اس پر آرمی کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا؟ کیا یہ آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر: کیا پانچ رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی دفعات کو شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا؟

جسٹس مسرت ہلالی: فوجی کا ذاتی عناد پر قتل اور فوجی تنصیبات پر حملہ دو الگ معاملات ہیں۔

خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ ملٹری کورٹس میں بھی آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل کا حق موجود ہے۔

عدالت کے سوالات:
عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر کوئی شخص آرمی ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں، تو کیا اسے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ نیز، عدالت نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کو آرٹیکل 8 اور آئینی حقوق کے تناظر میں متنازعہ قرار دیا۔

9 اور 10 مئی کے واقعات کا حوالہ:
سپریم کورٹ نے حکومت سے 9 اور 10 مئی کے واقعات کی ایف آئی آرز کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ عدالت نے ملٹری کورٹس کے دائرہ کار اور سویلینز کے مقدمات کے متعلق مزید شواہد اور وضاحت کی ہدایت کی ہے۔

سماعت ملتوی:
ملٹری کورٹس کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی گئی۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~