Connect with us

news

مسلح شر پسند عناصر کا قائد مراد سعید وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں روپوش، عطا اللہ تارڑ

Published

on

عطا اللہ تارڑ

وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا امن تباہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، مسلح شرپسند عناصر کا قائد مراد سعید وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں ہی روپوش ہے۔ سیکرٹری داخلہ خرم علی آغا و دیگر کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ کافی دنوں سے میڈیا اور سوشل میڈیا چینلز پر احتجاج کی ناکامی کو چھپانے کیلئے جھوٹا بیانیہ دیا جارہا ہے، پاکستانی عوام کے سامنے تمام تر حقائق کو ان کی اصل صحت کے ساتھ رکھنا ضروری ہے، گزشتہ ہونے والے کئی مظاہروں میں تربیت یافتہ جرائم پیشہ اور افغانی شہری مظاہروں میں موجود تھے، وہ تمام لوگ اسلحہ بھی بخوبی چلانا جانتے تھے لیکن اس دفعہ کے احتجاج میں آخری کال کے نام سے سنسنی بھی پھیلائی گئی۔
وزیر اطلاعات نےکہا کہ یہ سارے احتجاج غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر ہی کیوں کیے جاتے ہیں؟ ریاست ان اوچھے ہتھکنڈوں کے سامنے ہارتی نہیں، ریاست کا کام رٹ کو بحال رکھنا اور امن و امان قائم کرنے کے ساتھ، شہریوں کے حقوق اور حفاظت کو یقینی بنانا ہوتا ہے، ہمارے پاس پہلے سے ہی انٹیلیجنس رپورٹس تھیں کہ فائنل کال میں ایسی کوشش کی جائے گی کہ خون خرابہ ہو اور لاشیں گرائی جائیں، نیز اگرٹیکس پیئر کے پیسوں سے کسی بھی صوبائی حکومت کو وسائل دیئے جاتے ہیں تو اس کامقصد یہ نہیں کہ غیر قانونی احتجاج پر کڑوڑوں روپے خرچ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ جس وقت احتجاج چل رہا تھا اس وقت بیلا روس کے صدر کے ساتھ اعلیٰ سطح اجلاس ختم ہوا تھا، کنٹینر کے اوپر سے گرفتار 16 سالہ لڑکا افغان شہری ہی ہے، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے جاری کردہ ایک بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر ایسے پیش کیا گیا جیسے وہ افغانستان کی حکومت اور لوگوں کے مخالف ہے، افغانستان کے حوالے سے ریاست کی پالیسی بڑی واضح ہے، ہم افغانستان اور اپنے ملک میں امن کے خواہش مند ہیں۔
عطا تارڑ نے کہا کہ احتجاج میں 37 افغانی شہری شامل تھے، ان کا احتجاج سے کیا تعلق تھا؟ مظاہرین میں جرائم پیشہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے احتجاج کی آڑ میں پناہ لی ہوئی تھی، مہذب دنیا کے کسی بھی احتجاج میں اسلحہ لے کر آنے کی اجازت نہیں حکومت ہی جگہ کا تعین کرتی ہے اور پھر اسی کے مطابق احتجاج کا کہا جاتا ہے، کسی بھی مہذب معاشرے میں مظاہرین کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا، خیبرپختونخواہ حکومت کے خزانے سے کڑوڑوں روپے ان بے تکی چیزوں پر خرچ کیے جارہے ہیں، مظاہرین سے 45 بندوقیں بھی بازیاب کرائی گئی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست کبھی بھی اپنے لوگوں پر حملہ آور نہیں ہوتی، پی ٹی آئی نے احتجاج شروع ہی خون خرابے سے کیا، رینجرز اہلکاروں کے پر اس مقصد کے پیش نظر گاڑی چڑھا دی کہ ہم ہر کسی کے اوپر بھی گاڑی چڑھا سکتے ہیں، اب مراد سعید سی ایم ہاؤس کے پی میں روپوش ہیں، وہ نا صرف اس احتجاج میں خود شریک تھے بلکہ ان کے ساتھ تربیت یافتہ گروپ بھی موجود تھے جن کو مظاہرے میں لاشیں گرانے کی احکامات دیئے گئے تھے، آخر یہ کس طرح کی سیاست ہے؟ مراد سعید یہ کام پہلے بھی کرتے رہے ہیں، انہوں نے اس کام کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی، ریڈ زون میں داخل ہونے کی ضد ریاستی رٹ کو ختم کرنا تھا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اسلحہ انتشار پھیلانے والوں کے پاس تھا، بین الاقوامی میڈیا پر بھی پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے، ایک بھی ویڈیو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے براہ راست فائرنگ کی نہیں آئی، لاشوں کے حوالے سے جو پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے، پمز اور پولی کلینک ہسپتال دونوں نے اپنی پریس ریلیز میں واضح کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فائرنگ نہیں کی گئی اور نہ ہی اس طرح سے کوئی ہلاکت ہوئی ہے
، اگر فائرنگ کی گئی تو وہ احتجاجی مظاہرین کی طرف سے ہی کی گئی ہے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ کرم میں کہرام مچا ہوا ہے مگر تمام تر توجہ سیاست کے پر ہی ہے، اگر یہ فیصلہ کیا تھا تو پھر موقع سے فرار کیوں ہوئے؟ ملکی معیشت کو احتجاج کے باعث یومیہ 192 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، ان کے پاس براہ راست فائرنگ کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے، ان کو حقیقی مایوسی سیاسی طور پر اور لاشیں گرانے میں ناکامی پر ہوئی ہے، میں خیبرپختونخواہ کی عوام کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ان کی کال مسترد کی اور ان کے پاس آخر میں تقریباً 2 ہزار لوگ ہی رہ گئے، خیبرپختونخوا کی عوام تعلیم اور صحت چاہتے ہیں اور وہ اپنے صوبے کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں وہ انتشار کی سیاست نہیں چاہتے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

بیرسٹر گوہر علی خان کا پارلیمنٹ سے مذاکرات کا مطالبہ

Published

on

بیرسٹر گوہر

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے راستہ فراہم کرے تاکہ 9 مئی کی دھول بیٹھ سکے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا حساب لینے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہے اور اس مقصد کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے، جسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر پارلیمنٹ نے مذاکرات کا راستہ نہ دیا تو پی ٹی آئی پھر سے سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو گی اور انہیں بار بار سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہ پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے تاکہ مسائل کا حل نکالا جا سکے۔

بیرسٹر گوہر علی خان نے 9 مئی کے احتجاج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں کئی ممالک میں لوگوں نے ایوانوں میں داخل ہو کر احتجاج کیا لیکن وہاں گولی نہیں چلائی گئی، جبکہ پاکستان میں آئینی احتجاج کے دوران گولی چلائی گئی۔ وزیر دفاع کی جانب سے گولی چلانے کا الزام علی امین گنڈاپور کے گارڈز پر لگانے پر گوہر علی خان نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ حکومت یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ گولی چلائی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ نفاذ شریعت محمدی کے دوران گولی چلنے سے آٹھ افراد جان سے گئے تھے، لیکن حکومت نے پرچے کاٹ کر معافی مانگی اور معافی مل گئی۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت شہید ہونے والوں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتی تھی؟

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ انہیں پشتون کارڈ استعمال کرنے کا طعنہ دیا جاتا ہے، مگر ان کا موقف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں شامل لوگ غیر مسلح تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے کسی بھی ویڈیو میں اسلحہ استعمال نہیں کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو مقبولیت کے لیے جلسے جلوس نکالنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ 8 فروری کو ان کی مقبولیت ثابت ہو چکی ہے۔

جاری رکھیں

news

وزیر دفاع خواجہ آصف کا عمران خان اور جنرل فیض حمید کی پارٹنرشپ پر بیان

Published

on

ایک شخص کی حواریوں کے ہاتھوں ملک کو یرغمال نہیں بننے دیں گے"خواجہ آصف"

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان اور جنرل فیض حمید کی پارٹنرشپ 2018ء سے پہلے کی تھی اور یہ پارٹنرشپ 9 مئی کے بعد بھی جاری رہی۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے والوں میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سرفہرست تھے اور یہ بات شہادتوں سے سامنے آئے گی کہ 2018 میں کس طرح دھاندلی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور اقتدار میں بہت سے سویلین کا ملٹری ٹرائل کیا گیا اور اس بارے میں قانون فیصلہ کرے گا۔ وزیر دفاع نے الزام عائد کیا کہ ڈی چوک میں علی امین گنڈاپور کے گارڈز نے اپنے ہی افراد کو مارا اور اس کا ملبہ پولیس اور رینجرز پر ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گنڈا پور کی گاڑیوں پر ڈنڈے برسائے گئے اور پھر فائرنگ کی گئی، جس کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ صحافیوں نے جو کوریج کی وہ بھی ثبوت فراہم کرتی ہے۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ اگرچہ بعض لوگ 12 افراد کی شہادت کی بات کرتے ہیں، لیکن وہ ان 5 افراد کی شہادت کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو رینجرز اور پولیس کے افسران تھے اور دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوئے۔ ان کے مطابق، ان شہداء کا خون بھی قیمتی ہے اور ان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

وزیر دفاع نے واضح کیا کہ جب قانون حرکت میں آتا ہے تو اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے اور جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام ریاستی ادارے اور افسران قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں تاکہ پاکستان کی سلامتی میں رینجرز، پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کی قربانیاں محفوظ رہیں۔

خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کے دور میں کئی افراد کے ملٹری ٹرائل ہوئے تھے، جو اب مختلف وجوہات کی بنا پر نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی قانونی طریقے سے ہوا اس کا جواز تھا، لیکن اگر کوئی فرد قانون سے باہر جا کر کام کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ حکومت کا مقصد ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے اور اس میں کوئی شخص یا ادارہ استثنیٰ نہیں ہے۔ قانون کی بالادستی کے لئے ہر فرد اور ادارے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ملک میں امن قائم رہے اور ہر فرد کو انصاف مل سکے۔

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~