Connect with us

news

ماؤنٹ ایورسٹ یا مونا کیا؟ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ کون سا ہے؟

Published

on

ماؤنٹ ایورسٹ

یہ بات سننے میں حیران کن لگ سکتی ہے مگر سائنسی لحاظ سے کچھ وجوہات کی بنا پر ماؤنٹ ایورسٹ کو ہمیشہ ہر لحاظ سے دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ نہیں کہا جا سکتا۔ ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی سطح سمندر سے 8,848.86 میٹر (29,031.7 فٹ) ہے، یعنی سطحِ سمندر سے دنیا کا سب سے بلند مقام ہے۔ لیکن ماؤنٹ مونا کیا (Mauna Kea) جو امریکی ریاست ہوائی میں واقع ہے، اونچائی کے ایک اور معیار کے لحاظ سے ماؤنٹ ایورسٹ پر سبقت رکھتا ہے۔ اگرچہ مونا کیا سطح سمندر سے صرف 4,205 میٹر بلند ہے، مگر اگر سمندر کی تہہ سے اس کی بنیاد سے لے کر چوٹی تک ناپا جائے تو اس کی کل اونچائی تقریباً 10,210 میٹر بنتی ہے، جس کی وجہ سے یہ ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی زیادہ “لمبا” ہو جاتا ہے۔ اس فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مونا کیا کا ایک بڑا حصہ سمندر کے نیچے واقع ہے، جو سطح سمندر سے اونچائی کے بجائے پہاڑ کی مجموعی لمبائی ظاہر کرتا ہے۔ اس لیے اگر بات سطحِ سمندر سے بلندی کی ہو تو ماؤنٹ ایورسٹ سب سے اونچا مقام ہے، جبکہ زمین کی بنیاد سے چوٹی تک کی لمبائی کے لحاظ سے مونا کیا دنیا کا سب سے لمبا پہاڑ شمار ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں
تبصرہ کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

news

جرمن چانسلر کی ایران کو جوہری پروگرام پر تباہ کن کارروائی کی دھمکی

Published

on

جرمن چانسلر

جرمنی کے چانسلر فریڈرک مارس نے ایران کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تہران نے اپنے جوہری پروگرام سے پیچھے نہ ہٹا تو جرمنی اور اس کے اتحادی اس کے خلاف تباہ کن فوجی کارروائی کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ ایک میڈیا انٹرویو میں جرمن چانسلر مارس نے واضح کیا کہ اسرائیل تنہا ایران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لہٰذا عالمی طاقتوں کو مل کر اس کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ایران دہشتگرد تنظیموں جیسے حماس اور حزب اللہ کی پشت پناہی کر رہا ہے اور خطے میں بدامنی پھیلا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایران مذاکرات کی میز پر واپس آ جائے تو فوجی اقدام کی نوبت نہیں آئے گی، اور اب بھی سفارتی حل کے دروازے کھلے ہیں۔ چانسلر نے مزید کہا کہ ایران سفارتی طور پر تنہا ہوتا جا رہا ہے اور اس کی اندرونی و بیرونی پوزیشن کمزور ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کے صدر شی جن پنگ نے عالمی طاقتوں کو تاریخ سے سبق سیکھنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر سلطنت کو زوال کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور امریکہ اگر دنیا کا احترام نہ کرے گا تو وہ بھی ماضی کی سلطنتوں کی طرح زوال پذیر ہو جائے گا۔

جاری رکھیں

news

لیزر ایئر ڈیفنس سسٹم: پاکستان کیلئے جدید دفاعی ٹیکنالوجی کی ضرورت

Published

on

لیزر ایئر ڈیفنس سسٹم

حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بھارتی افواج نے کثیر تعداد میں ڈرونز استعمال کیے تاکہ پاکستان کے دفاعی نظام کو متاثر کیا جا سکے۔ اسی طرح ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع میں بھی ڈرونز ایک کلیدی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ اس بدلتے ہوئے جنگی ماحول میں لیزر ایئر ڈیفنس سسٹم ایک جدید، سستا اور مؤثر حل کے طور پر سامنے آیا ہے جو مستقبل کی جنگی حکمت عملی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

لیزر ایئر ڈیفنس سسٹم دراصل “کلوواٹ بجلی” پر مبنی ہوتے ہیں جن کے ذریعے بجلی سے پیدا ہونے والی لیزر شعاع روشنی کی رفتار سے دشمن کے فضائی اور زمینی ہتھیاروں کو نشانہ بناتی ہے۔ ان سسٹمز کی طاقت اس میں استعمال ہونے والی بجلی کی مقدار پر منحصر ہوتی ہے — جتنی زیادہ کلوواٹ، اتنی زیادہ تباہ کن لیزر۔

چین اس شعبے میں نمایاں پیش رفت کر چکا ہے اور 50 کلوواٹ کا ایسا سسٹم تیار کر چکا ہے جو 5 کلومیٹر دور تک اڑنے والے ڈرونز کو با آسانی نشانہ بنا سکتا ہے۔ دوسری جانب بھارت کا سرکاری ادارہ DRDO “سوریہ” نامی ایک لیزر سسٹم بنا رہا ہے جو 300 کلوواٹ توانائی کے ساتھ 20 کلومیٹر دور تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھے گا۔

دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان کے اداروں کو بھی فوری طور پر اس ٹیکنالوجی پر کام شروع کرنا چاہیے۔ چین کے ساتھ سائنسی تعاون کے ذریعے یہ سسٹمز کم وقت میں مقامی سطح پر تیار کیے جا سکتے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک لیزر فائر کرنے پر محض 300 روپے لاگت آتی ہے، جبکہ اس سے لاکھوں روپے مالیت کے ڈرونز یا دیگر فضائی خطرات کو فوری تباہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ لاگت روایتی میزائل یا دفاعی ہتھیاروں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔

فی الحال دنیا میں اسرائیل کا “آئرن بیم” سسٹم سب سے زیادہ مؤثر مانا جا رہا ہے، جو 100 کلوواٹ لیزر استعمال کرکے 20 کلومیٹر دور اڑنے والے اہداف کو مار گراتا ہے۔ پاکستان اگر اس سمت میں سنجیدگی سے اقدامات کرے تو مستقبل میں اپنی فضائی حدود کو مزید محفوظ بنا سکتا ہے

جاری رکھیں

Trending

backspace
caps lock enter
shift shift
صحافت نیوز کی بورڈ Sahafatnews.com   « » { } ~