news
پی آئی اے کی نج کاری کے لیے دوبارہ بولیاں مانگنے کا حکومتی فیصلہ، وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان
حکومت نے قومی ایئر لائن پی آئی اے کی نج کاری کے لیے دوبارہ بولیاں مانگنے کا فیصلہ کر لیا ہے
وفاقی وزیرِ نج کاری عبدالعلیم خان نے سینیٹر طلال چوہدری کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نج کاری کے اجلاس میں یہ اطلاع دی
اجلاس میں پی آئی اے کی نج کاری کے لیے خریداروں کی عدم دلچسپی کا معاملہ بھی زیرِ بحث رہا
وفاقی وزیرِ نج کاری نے پی آئی اے کی نج کاری پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال 28 نومبر 2023ء کو پی آئی اے کی نج کاری کا عمل شروع کیا گیا میرے وزیر بننے تک پی آئی اے کی نج کاری کا عمل شروع ہو چکا تھا
عبدالعلیم خان نے کہا کہ پی آئی اے میں ٹوٹل 830 ارب روپے کے نقصانات تھے،اور اس کی نجکاری کے وقت 45 ارب روپے کا خسارہ تھا، جب ہم نے پی آئی اے کے لیے بولیاں مانگیں تو خواہش رکھنے والی پارٹیز سامنے آئیں، ایک مرتبہ نج کاری کا عمل شروع ہو جائے تو اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا
عبدالعلیم خان نے کہا کہ ایف بی آر سے درخواست کی تھی کہ نئے طیاروں کی خریداری پر جی ایس ٹی ہٹا لیں، پوری دنیا میں کہیں بھی اس طرح طیاروں پر جی ایس ٹی نہیں لیا جاتا، ایف بی آر بات نہیں سمجھتا
وفاقی وزیر نے کہا کہ ایئر انڈیا کی نج کاری بھی 5 بار ناکام ہوئی، اس کے بعد ان کی نج کاری ہوئی، پی آئی اے کی نج کاری کے لیے بھی دوبارہ بولیاں مانگیں گے
جس پر سیکریٹری نج کاری کمیشن نے کہا کہ دوبارہ بولیوں کی طرف گئے تو یہ مختصر پراسس ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی دوبارہ نج کاری کے لیے بات چل رہی ہے، وزیرِ اعظم شہباز شریف کا دوبارہ نج کاری پر فوکس ہے جبکہ اس میں منافع بخش ادارہ بننے کا پورا پوٹینشل ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں آج بھی کہتا ہوں کہ پی آئی اے ایک منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے، اگر اسے بیچنا ہے تو حکومت کو دل بڑا کرنا پڑے گا، حکومت کو نج کاری سے پہلے سرکاری اداروں کو ہر طرح کے خساروں سے پاک کرنا چاہیے، پی آئی اے کی نج کاری کا فیصلہ فورًا ہونا چاہیے، اس نج کاری کے لیے ہمیں دوسری وزارتوں کی مدد کی ضرورت ہے
سیکریٹری نج کاری کمیشن کا کہنا ہے کہ ٹیکس مراعات کے لیے آئی ایم ایف کو بھی بریفنگ دی گئی، سرمایہ کاروں کی طرف سے 26 ارب روپے کا ٹیکس معاف کرنے کا کہا گیا تھا، سرمایہ کاروں نے 10 ارب روپے فنانسنگ کی ادائیگی اپنے ذمے لینے کا بھی کہا تھا، 18 فیصد جی ایس ٹی یورپی اور امریکی ایئر لائنز پر بھی لاگو نہیں ہوتا، پی آئی اے کو نئے جہازوں کی ضرورت ہے مگر ٹیکس کے باعث ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے ایف بی آر نے آئی ایم ایف کی منظوری سے پہلے یہ ٹیکس ریلیف دینے سے انکار کیا تھا، وزیرِ اعظم نے آئی ایم ایف کو اس حوالے سے اعتماد میں لینے کے لیے کہا تھا،
آئی ایم ایف مشن سے اس پر مذاکرات کیے گئے، ہمیں تو کسی سرمایہ کار نے ایسا کچھ نہیں کہا