news
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس کی سماعت
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی میں بڑی دلچسپی دکھائی۔ اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 1975 میں ایف بی علی کیس میں پہلی بار ٹو ون ڈی ون کا ذکر ہوا۔ انہوں نے آرمی ایکٹ کو ایک بلیک ہول قرار دیا اور کہا کہ اس میں کسی بھی ترمیم سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہو سکتے۔ قانون کے مطابق، جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہونا ضروری ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر آرمڈ فورسز کا کوئی شخص گھر بیٹھے کوئی جرم کرتا ہے تو کیا اس پر آرمی ایکٹ لاگو ہوگا؟
سلمان اکرم راجہ نے وضاحت کی کہ مثال کے طور پر، پنجاب میں پتنگ اڑانا منع ہے۔ اگر پنجاب میں کوئی ملٹری اہلکار گھر میں پتنگ اڑاتا ہے تو اس پر ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا، بلکہ سویلین قانون لاگو ہوگا۔ سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان اور سلمان راجہ کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر کسی فوجی جوان کا گھریلو مسئلہ ہے اور وہ پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کر لیتا ہے تو اس صورت میں کیا ہوگا؟