news

سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کے خلاف حکومتی اپیلوں کی سماعت

Published

on

سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کے ذریعے سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے سویلینز کے بنیادی حقوق پر اہم سوالات اٹھائے۔

جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نے سماعت کے دوران واضح کیا کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق کرنے سے ان کے آئینی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔

وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کی مخصوص دفعات سویلینز پر ان خاص حالات میں لاگو ہوتی ہیں، جہاں قانون اجازت دیتا ہے۔

عدالت کے اہم ریمارکس:

جسٹس جمال مندوخیل: جو شخص آرمی میں نہیں ہے، اس پر آرمی کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا؟ کیا یہ آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر: کیا پانچ رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی دفعات کو شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا؟

جسٹس مسرت ہلالی: فوجی کا ذاتی عناد پر قتل اور فوجی تنصیبات پر حملہ دو الگ معاملات ہیں۔

خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ ملٹری کورٹس میں بھی آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل کا حق موجود ہے۔

عدالت کے سوالات:
عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر کوئی شخص آرمی ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں، تو کیا اسے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ نیز، عدالت نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کو آرٹیکل 8 اور آئینی حقوق کے تناظر میں متنازعہ قرار دیا۔

9 اور 10 مئی کے واقعات کا حوالہ:
سپریم کورٹ نے حکومت سے 9 اور 10 مئی کے واقعات کی ایف آئی آرز کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ عدالت نے ملٹری کورٹس کے دائرہ کار اور سویلینز کے مقدمات کے متعلق مزید شواہد اور وضاحت کی ہدایت کی ہے۔

سماعت ملتوی:
ملٹری کورٹس کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Trending

Exit mobile version