news
پاکستان کا آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کے قرض پر 5 فیصد شرح سود کا اعتراف
حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 7 ارب ڈالر کا قرض 4.87 فیصد شرح سود پر لینے کا اعتراف کر لیا ہے۔ یہ انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کی، جبکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اجلاس میں شرکت کی۔
وزیر خزانہ نے اجلاس میں بتایا کہ حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں سے قرض لینے میں جلدی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہو کر بی کیٹیگری میں آنے کے بعد پاکستان بین الاقوامی مارکیٹوں سے بہتر شرائط پر فائدہ اٹھا سکے گا۔ موجودہ وقت میں بیرونی فنانسنگ کا فرق پورا ہو چکا ہے، اس لیے کمرشل بینکوں سے قرض لینے کا فیصلہ ضرورت کے تحت اور اپنی شرائط پر کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اپریل سے کمرشل بینکوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے، تاہم کمرشل قرض لینے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ ریٹنگ ایجنسیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، اور بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں تک رسائی کے لیے بی ریٹنگ میں اپ گریڈ ایک اہم مرحلہ ہوگا۔ اس حوالے سے پانڈہ بانڈز کے ذریعے چینی مارکیٹ میں قدم رکھنے کی توقع ہے، جو رواں مالی سال کے آخر یا آئندہ سال کے اوائل میں ممکن ہو سکے گا۔
قرض پر شرائط اور سود کی تفصیلات:
سینیٹ کمیٹی کو پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق، پاکستان کو آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض پر سپیشل ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آرز) پر 3.37 فیصد سود، 1 فیصد اضافی مارجن، اور 0.50 فیصد سروس چارج ادا کرنا ہوگا۔ اس طرح مجموعی طور پر قرض پر 4.87 فیصد مارک اپ لاگو ہوگا۔
وزیر خزانہ نے تصدیق کی کہ آئی ایم ایف کا نیا معاہدہ وسیع ہے اور اس میں اضافی شرائط بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی فنانسنگ کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، اور مستقبل کے قرض لینے کے فیصلے مکمل شفافیت کے ساتھ کیے جائیں گے۔
دیگر قرضوں کی تفصیلات:
سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ حکومت نے غیر ملکی کمرشل بینکوں سے 24 سے 36 ماہ کی مدت کے لیے 7 ارب 40 کروڑ ڈالر کا قرض لیا ہے، جس پر 7 سے 8 فیصد تک شرح سود مقرر ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے کی واپسی کا شیڈول 10 سال پر محیط ہے، جس میں ساڑھے 4 سال کی رعایتی مدت شامل ہے۔ واپسی کی ادائیگی 12 نیم مساوی سالانہ اقساط میں کی جائے گی۔
اجلاس میں شرکاء نے موجودہ قرضوں کے بوجھ اور ان پر سود کی بلند شرح کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا اور حکومت سے شفافیت برقرار رکھنے اور مؤثر معاشی حکمت عملی اپنانے کا مطالبہ کیا۔