news
سپریم کورٹ: 63 اے کیس کالعدم قرار
سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر ارٹیکل 63 اے پر نظر ثانی کیس کی سماعت منظور کر لی ہے ۔ سپریم کورٹ نے ارٹیکل 63اے کی تشریح کرتے ہوئے پہلے یہ قرار دیا تھا کہ اگر کوئی انحراف کرے تو اس کا ووٹ شمار بھی نہیں کیا جائے گا اس فیصلے کو واپس لے لیا ہے ۔جو نظر ثانی کی درخواست تھی اسے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے
بنیادی طور پر یہ نظر ثانی کی درخواست تھی جو سپریم کورٹ بار کی جانب سے دائر کی گئی تھی ۔اس کی حمایت ایڈیشنل اٹارنی جنرل ،پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق کی جانب سے بھی کی گئی تھی اور پاکستان تحریک انصاف نے اس عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا تھا ۔دلائل مکمل ہونے کے بعد کمرہ عدالت میں بھی اب یہ فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔
عدالت نے متفقہ طور پر نظر ثانی کی اپیل منظور کر لی ہے اور کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائض عیسی کی طرف سے اپیل متفقہ طور پر منظور کی جاتی ہے۔ جو ارٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق جسٹس منیب کا فیصلہ تھا 2022 کا وہ بھی واپس لیا جاتا ہے ۔اس فیصلے کے خلاف بنیادی طور پر بھی جو نظرثانی دائر کی گئی تھی اس میں یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ ائین کو دوبارہ لکھ لیا جاتا ہے اور آج سپیکر کی جانب سے بھی عدالت کے سامنے یہی موقف رکھا گیا کہ ائین میں یہ الفاظ شامل نہیں تھے کہ ووٹ کو ڈس ریگارڈ کیا جائے گا
بیرسٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا مجھے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میرے لیے عدالت سے اجازت طلب کریں اگر اجازت ملے تو میں ضرور کچھ پوائنٹس عدالت کو بتا کر اپنا موقف بیان کرنا چاہوں گا۔ لیکن عدالت سے اجازت نہیں ملی جس پر مجھے عمران خان کی طرف سے کہا گیا کہ میں ان کا یہ موقف بیان کر دوں کہ وہ پروسیڈنگز میں پارٹی سپیٹ نہیں کریں گے۔ اس کے بعد سے ہم نے ودڈرا کر لیا ،پانچ رکنی بینچ کا جو فیصلہ ہونے جا رہا ہے یقینا یہ فیصلہ ہمارے مطابق وہ بینچ کرے گا جو قانون کے مطابق تشکیل نہیں دیا گیا ۔
اس کا فیصلہ اس وقت تک قابل عمل نہیں ہوگا جب تک کہ سپریم کورٹ اس پر یہ فیصلہ نہ کرے کہ یہ بینچ قانونی ہے یا نہیں ہے.بعد ازاں مجھے عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ آپ ایز اے فرینڈ آف کورٹ کچھ سوالات کے جواب دیں، جس پر میں نے ایز اے پروفیشنل لائر جواب دیے ۔آبھی عدالت کی سماعت جاری ہے تاہم میں نے اپنے جواب دے کر عدالت کو اپنا موقف واضح کر دیا ہے ۔
ابھی تک بینچ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے تشکیل نہیں دیا گیا اس لیے ان کو رک جانا چاہیے وہ فیصلہ نہیں کر سکتے ۔آخر میں ،میں نے عدالت کو درخواست کر کے یہ بھی کہا کہ آپ 17 یا 18 جتنے بھی ججز ہیں سب کو بٹھا کر اس مسئلے کو حل کریں ورنہ اگر آپ نے 63 اے کی تشریح کو تبدیل کر دیا تو یہ ہارس ٹریڈنگ پاکستان میں واپس آ جائے گی ۔
آج صبح کا بلاول بھٹو کا بیان جو اخباروں میں بھی شائع ہوا کہ 25 اکتوبر سے پہلے پہلے امینڈمنٹ کے بل کو پاس کروانا ہے اس کا بھی صبح عدالت میں ذکر کیا گیا تھا جس پر عدالت نے کہا کہ ہم آپ کو نہیں سنیں گے۔ عدالت میں آبھی کیس چل رہا ہے لیکن ہم اس زیادہ پارٹیسپیٹ نہیں کر سکتے اس لیے ہم اس پروسیڈنگ سے ود ڈرا کر رہے ہیں اب اگر عدالت اپنی پروسیڈنگز کو جاری رکھتی ہے اور کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ میرا خیال میں آئینی نہیں ہوگا